سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر میں اپنے شہر سے 92 کلو میٹر دور کا سفر کروں اور جہاں مجھے جانا ہے وہاں میرا قیام بھی 15 دن سے زائد کا ہے۔ آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ اس صورت حال میں کیا مجھے دورانِ سفر قصر نماز پڑھنا ہوگی؟؟ رہنمائی فرمادیں۔ سائل: مدثر علی
جواب: پوچھی گئی صورت میں آپ اپنے شہر کی شرعی حدود یعنی شہر کی آبادی اور اس شہر سے متصل فنائے شہر سے نکلنے کے بعد، اور دوسرے شہر کی شرعی حدود میں داخل ہونے سے پہلےتک، راستے بھر قصر نماز پڑھیں گے۔
فتاوٰی عالمگیری میں ہے : ”قال محمدرحمه اللہ تعالى:يقصر حين يخرج من مصره ويخلف دور المصر، كذا في المحيط “ یعنی امام محمد رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ آدمی جب اپنے شہر سے نکل جائے اور اس کےشہر کے گھر پیچھے رہ جائیں، تو اس وقت وہ قصر شروع کرے گا ، ایسا ہی محیط میں ہے ۔(فتاوٰی عالمگیری، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 139، مطبوعہ پشاور)
سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”زید جب وطن سے اُس شہر کے قصد پرچلا اور وطن کی آبادی سے باہر نکل گیا اس وقت سے قصر واجب ہوگیا، راستے بھر تو قصر کرے گا ہی اور اگر اُس شہر میں پہنچ کر اس بار پندرہ روز یا زیادہ قیام کا ارادہ نہیں، بلکہ پندرہ دن سے کم میں واپس آنے یا وہاں سےاور کہیں جانے کا قصد ہے،تووہاں جب تک ٹھہرے گا اس قیام میں بھی قصر ہی کرے گا اور اگر وہاں اقامت کا ارادہ ہے ،تو صرف راستہ بھر قصر کرے، جب اس شہر کی آبادی میں داخل ہوگا قصر جاتا رہے گا۔ وﷲ تعالیٰ اعلم “(فتاوی رضویہ، ج08، ص258،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)
بہارِ شریعت میں ہے:”مسافر کا حکم اس وقت سے ہے کہ بستی کی آبادی سے باہر ہو جائے شہرمیں ہے تو شہر سے، گاؤں میں ہے تو گاؤں سے۔۔۔ فنائے شہر یعنی شہر سے باہر جو جگہ شہر کے کاموں کے ليے ہو مثلاً قبرستان، گھوڑ دوڑ کا میدان، کوڑا پھینکنے کی جگہ اگر یہ شہر سے متصل ہو تو اس سے باہر ہو جانا ضروری ہے۔“ (بہارِ شریعت، ج 01، ص 742، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم