چاند نظرآنے کے بعد ناخن ،بال کاٹنے کا حکم

چاند نظرآنے کے بعدذو الحجہ کے 10 دنوں میں ناخن ،بال کاٹنے کا حکم

سوال:ماہ ذی الحجہ کاچاندنظرآنے کے بعدبال،ناخن ترشوانے کے بارے میں کیاحکم ہے؟

جواب: جولوگ قربانی کاارادہ رکھتے ہوں ان کے لئے مستحب یہ ہے کہ ماہ ذی الحجہ کا چاند نظرآنے کے بعدبال،ناخن نہ ترشوائیں تاکہ حاجیوں سے مشابہت ہو جائے کیونکہ وہ احرام کی حالت میں حجامت نہیں کرواسکتے تاکہ قربانی ہر بال،ناخن کا فدیہ بن جائے۔

       صحیح مسلم میں ہے:

       حضرتِ اُمّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:

       ’’من کان لہ ذبح یذبحہ فاذااھل ھلال ذی الحجۃ  فلایخذن من شعرہ ولامن اظفا رہ شیئا حتی یضحی‘‘

جولوگ قربانی کی استطاعت نہ رکھتے ہوں،اگروہ بھی نمازِعیدکے بعدحجامت وغیرہ کروائیں توکیاانہیں بھی ثواب ملے گا؟

       جس کے پاس قربانی کے لیے جانور ہو، تو جب ذو الحجہ کا چاند طلوع ہوجائےتووہ قربانی کرنے تک  اپنے بالوں اور ناخنوں کو بالکل نہ کاٹے ۔

(صحیح مسلم،ج2، ص 160)

       جامع ترمذی میں ہے:

       انہی حضرتِ اُمّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:’’من رأی ھلال ذی الحجۃ وارادان یضحی فلایخذن من شعرہ ولامن اظفا رہ‘‘

       جو ذو الحجہ کا چاند دیکھے اور قربانی کا ارادہ رکھتا ہو، تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔‘‘(یعنی جب تک قربانی نہ کرلے بال اورناخنوں کونہ کاٹے)۔

(جامع ترمذی،ج1،ص411)

       مفسرشہیرحکیم الامت مفتی احمدیارخان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القوی مذکورہ حدیثِ مبارک کی شرح میں تحریرفرماتے ہیں:

       ’’یعنی جوامیروجوباًیافقیرنفل قربانی کاارادہ کرے وہ بقرعیدکاچانددیکھنے سے قربانی کرنے تک ناخن،بال اورمردارکھال وغیرہ نہ کاٹے نہ کٹوائے تاکہ حاجیوں سے قدرے مشابہت ہو جائے کیونکہ وہ احرام میں حجامت نہیں کرواسکتے تاکہ قربانی ہربال،ناخن کافدیہ بن جائے۔یہ حکم استحبابی ہے وجوبی نہیں لہٰذاقربانی والے کاحجامت نہ کرانابہترہے لازم نہیں۔اوراس سے یہ بھی معلوم ہواکہ اچھوں کی مشابہت بھی اچھی ہوتی ہے۔بلکہ جوقربانی نہ کرسکے وہ بھی اس عشرہ میں حجامت نہ کرائے،بقرعیدکے دن بعدنمازحجامت کرائے توا نشاء اللہ قربانی کاثواب پائے گا۔جیسا کہ بعض روایات میں ہے‘‘۔

(مرآۃ المناجیح،ج 2،ص370)

       فتاوی رضویہ میں ہے:

       ’’یہ حکم صرف استحبابی ہے کرے توبہترہے نہ کرے تومضائقہ نہیں،نہ اس کوحکم عدولی کہہ سکتے ہیں نہ قربانی میں نقص آنے کی کوئی وجہ،بلکہ اگرکسی شخص نے ۳۱ دن سے کسی عذرکے سبب خواہ بلاعذرناخن تراشے ہوں نہ خط بنوایاہوکہ چاندذی الحجہ کاہوگیاتووہ اگر چہ قربانی کاارادہ رکھتاہواس مستحب پرعمل نہیں کرسکتااب دسویں تک رکھے گاتوناخن وخط بنوائے ہوئے اکتالیسواں دن ہوجائے گا۔

       اورچالیس دن سے زیادہ نہ بنواناگناہ ہے۔فعلِ مستحب کے لئے گناہ نہیں کرسکتا۔

       فی ردالمحتار فی شرح المنیۃ وفی المضمرات،عن ابن المبارک فی تقلیم الاظفاروحلق الراس فی عشر ذی الحجۃ،قال لاتؤخرالسنۃ،وقد ورد ذٰٰلک ولایجب التاخیر اھ فہذامحمول علی الندب بالاجماع الاان نفی الوجوب لاینافی الاستحباب فیکون مستحباالاان استلزم الزیادۃ علی وقت اباحۃ التاخیر، ونہایۃ مادون الاربعین، فلا یباح فوقہا، اھ مختصرا‘‘

       ’’ردالمحتارمیں ہے کہ منیہ کی شرح اور مضمرات میں ابن مبارک سے نقل کیا کہ ناخن کاٹنااورسرمنڈاناذوالحجہ کے دس دنوں میں،آپ نے اس کے متعلق فرمایاکہ سنت کومؤخرنہ کیاجائے جبکہ اس کے متعلق حکم واردہے تاہم تاخیر واجب نہیں ہے اھ تویہ بالاجماع  استحباب پرمحمول ہے مگریہ کہ وجوب کی نفی استحباب کے منافی نہیں ہے لہذامستحب ہے ہاں اگراباحت کی مدت پرتاخیرکو مستلزم ہوتومستحب نہ ہوگا،اباحت کی مدّت کی انتہاچالیس روزہے تواس سے زیادہ تاخیرمباح نہ ہوگی اھ مختصرا ‘‘۔

(فتاوی رضویہ ،ج20،ص353)

(قربانی کے احکام از شیخ الحدیث مفتی عرفان احمد عطاری مدنی)

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے