قبر و دفن کا بیان
مسئلہ ۱: میّت کو دفن کرنا فرض کفایہ ہے اور یہ جائز نہیں کہ میّت کو زمین پر رکھ دیں اور چاروں طرف سے دیواریں قائم کر کے بند کر دیں۔ [1] (عالمگیری، ردالمحتار)
مسئلہ ۲: جس جگہ انتقال ہوا اسی جگہ دفن نہ کریں کہ يہ انبیا عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکے ليے خاص ہے بلکہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کریں، مقصد یہ کہ اس کے ليے کوئی خاص مدفن نہ بنایا جائے میّت بالغ ہو یا نابالغ۔ [2] (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۳: قبر کی لنبائی میّت کے قد برابر ہو اور چوڑائی آدھے قد کی اور گہرائی کم سے کم نصف قد کی اور بہتر یہ کہ گہرائی بھی قد برابر ہو اور متوسط درجہ یہ کہ سینہ تک ہو۔[3] (ردالمحتار) اس سے مراد یہ کہ لحد یا صندوق اتنا ہو، یہ نہیں کہ جہاں سے کھودنی شروع کی وہاں سے آخر تک یہ مقدار ہو۔
مسئلہ ۴: قبر دو قسم ہے، لحد کہ قبر کھود کر اس میں قبلہ کی طرف میّت کے رکھنے کی جگہ کھودیں اور صندوق وہ جو ہندوستان میں عموماً رائج ہے، لحد سنت ہے اگر زمین اس قابل ہو تو یہی کریں اور نرم زمین ہو تو صندوق میں حرج نہیں۔ [4] (عالمگیری)
مسئلہ ۵: قبر کے اندر چٹائی وغيرہ بچھانا ناجائز ہے کہ بے سبب مال ضائع کرنا ہے۔ [5] (درمختار)
مسئلہ ۶: تابوت کہ میّت کو کسی لکڑی وغیرہ کے صندوق میں رکھ کر دفن کریں یہ مکروہ ہے، مگر جب ضرورت ہو مثلاً زمین بہت تر ہے تو حرج نہیں اور اس صورت میں تابوت کے مصارف اس میں سے ليے جائیں جو میّت نے مال چھوڑا ہے۔ [6] (عالمگیری، درمختار وغیرہما)
مسئلہ ۷: اگر تابوت میں رکھ کر دفن کریں تو سنت یہ ہے کہ اس میں مٹی بچھا دیں اور دہنے بائیں خام [7]اینٹیں لگا دیں اور اوپر کہگل[8] کر دیں غرض یہ کہ اندر کا حصہ مثل لحد کے ہو جائے اور لوہے کا تابوت مکروہ ہے اور قبر کی زمین نم ہو تو دھول بچھا دینا سنت ہے۔[9] (صغیری، ردالمحتار)
مسئلہ ۸: قبر کے اس حصہ میں کہ میّت کے جسم سے قریب ہے، پکی اينٹ لگانا مکروہ ہے کہ اینٹ آگ سے پکتی ہے۔ اللہ تعَالیٰ مسلمانوں کو آگ کے اثر سے بچائے۔ [10] (عالمگیری وغیرہ)
مسئلہ ۹: قبر میں اترنے والے دو تین جو مناسب ہوں کوئی تعداد اس میں خاص نہیں اور بہتر یہ کہ قوی و نیک و امینہوں کہ کوئی بات نا مناسب دیکھیں تو لوگوں پر ظاہر نہ کریں۔ [11] (عالمگیری)
مسئلہ ۱۰: جنازہ قبر سے قبلہ کی جانب رکھنا مستحب ہے کہ مردہ قبلہ کی جانب سے قبر میں اتارا جائے، یوں نہیں کہ قبر کی پائنتی رکھیں اور سر کی جانب سے قبر میں لائیں۔ [12](درمختار وغیرہ)
مسئلہ ۱۱: عورت کا جنازہ اتارنے والے محارم ہوں، یہ نہ ہوں تو دیگر رشتہ والے یہ بھی نہ ہوں تو پرہیزگار اجنبی کے اتارنے میں مضايقہ نہیں۔[13](عالمگیری)
مسئلہ ۱۲: میّت کو قبر میں رکھتے وقت یہ دُعا پڑھیں:
بِسْمِ اللہِ وَ بِاللہِ وَعَلٰی مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللہِ .
اور ایک روایت میں بِسْمِ اللہِ کے بعد وَفِیْ سَبِیْلِ اللہِ بھی آیا ہے۔ [14](عالمگیری، ردالمحتار)
مسئلہ ۱۳: میّت کو دہنی طرف کروٹ پر لٹائیں اور اس کا مونھ قبلہ کو کریں، اگر قبلہ کی طرف مونھ کرنا بھول گئے تختہ لگانے کے بعد یاد آیا تو تختہ ہٹا کر قبلہ رُو کر دیں اور مٹی دینے کے بعد یاد آیا تو نہیں۔ يوہيں اگر بائیں کروٹ پر رکھا یا جدھر سرہانا ہونا چاہيے ادھر پاؤں کيے تو اگر مٹی دینے سے پہلے یاد آیا ٹھیک کر دیں ورنہ نہیں۔ [15](عالمگیری، درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۱۴: قبرمیں رکھنے کے بعد کفن کی بندش کھول دیں کہ اب ضرورت نہیں اور نہ کھولی تو حرج نہیں۔ [16](جوہرہ)
مسئلہ ۱۵: قبر میں رکھنے کے بعد لحد کو کچی اینٹوں سے بند کریں اور زمین نرم ہو تو تختے لگانا بھی جائز ہے، تختوں کے درمیان جھری رہ گئی تو اُسے ڈھیلے وغیرہ سے بند کر دیں، صندوق کا بھی یہی حکم ہے۔ [17] (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۱۶: عورت کاجنازہ ہو تو قبر میں اتارنے سے تختہ لگانے تک قبر کو کپڑے وغیرہ سے چھپائے رکھیں، مرد کی قبر کو دفن کرتے وقت نہ چھپائیں البتہ اگر مينھ وغیرہ کوئی عذر ہو تو چھپانا جائز ہے، عورت کا جنازہ بھی ڈھکا رہے۔ [18](جوہرہ، درمختار)
مسئلہ ۱۷: تختے لگانے کے بعد مٹی دی جائے مستحب یہ ہے کہ سرہانے کی طرف دونوں ہاتھوں سے تین بار مٹی ڈالیں۔
پہلی بار کہیں: مِنْھَا خَلَقْنٰـکُمْ . [19]
دوسری بار: وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ . [20]
تیسری بار: وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْریٰ . [21]
یا پہلی بار: اَللّٰھُمَّ جَافِ الْاَرْضَ عَنْ جَنْبَیْہِ . [22]
دوسری بار: اَللّٰھُمَّ افْتَحْ اَبْوَابَ السَّمَآءِ لِرُوْحِہٖ . [23]
تیسری بار: اَللّٰھُمَّ زَوِّجْہُ مِنْ حُوْرِ الْعِیْنِ . [24]
اور میّت عورت ہو تو ،
تیسری بار یہ کہیں: اَللّٰھُمَّ ادْخِلْھَا الْجَنَّۃَ بِرَحْمَتِکَ . [25]
باقی مٹی ہاتھ یا کُھرپی یا پھوڑے وغیرہ جس چیز سے ممکن ہو قبر میں ڈالیں اور جتنی مٹی قبر سے نکلی اُس سے زیادہ ڈالنا مکروہ ہے۔[26](جوہرہ، عالمگیری)
مسئلہ ۱۸: ہاتھ میں جو مٹی لگی ہے، اسے جھاڑ دیں یا دھو ڈاليں اختيار ہے۔
مسئلہ ۱۹: قبر چوکھونٹی نہ بنائیں بلکہ اس میں ڈھال رکھیں جیسے اونٹ کا کوہان اور اس پر پانی چھڑکنے میں حرج نہیں، بلکہ بہتر ہے اور قبر ایک بالشت اونچی ہو یا کچھ خفیف زیادہ۔[27] (عالمگیری، ردالمحتار)
مسئلہ ۲۰: جہاز پر انتقال ہوا اور کنارہ قریب نہ ہو، تو غسل و کفن دے کر نماز پڑھ کر سمندر میں ڈبو دیں۔[28] (غنیہ، ردالمحتار)
مسئلہ ۲۱: علما و سادات کی قبور پر قبہ وغیرہ بنانے میں حرج نہیں اورقبر کو پختہ نہ کیا جائے۔ [29] (درمختار، ردالمحتار) یعنی اندر سے پختہ نہ کی جائے اور اگر اندر خام ہو، اوپر سے پختہ تو حرج نہیں۔
مسئلہ ۲۲: اگر ضرورت ہو تو قبر پر نشان کے ليے کچھ لکھ سکتے ہیں، مگر ایسی جگہ نہ لکھیں کہ بے ادبی ہو، ایسے مقبرہ میں دفن کرنا بہتر ہے جہاں صالحین کی قبریں ہوں۔[30] (جوہرہ، درمختار)
مسئلہ ۲۳: مستحب یہ ہے کہ دفن کے بعد قبر پر سورۂ بقر کا اوّل و آخر پڑھیں سرہانے المۤ سے مُفْلِحُوْنَ تک اور پائنتی اٰمَنَ الرَّسُوْلُ سے ختم سورت تک پڑھیں۔ [31] (جوہرہ)
مسئلہ ۲۴: دفن کے بعد قبر کے پاس اتنی دیر تک ٹھہرنا مستحب ہے جتنی دیر میں اونٹ ذبح کر کے گوشت تقسیم کر دیا جائے، کہ ان کے رہنے سے میّت کو انس ہو گا اور نکیرین کا جواب دینے میں وحشت نہ ہوگی اور اتنی دیر تک تلاوتِ قرآن اور میّت کے ليے دُعا و استغفار کریں اور یہ دُعا کریں کہ سوال نکیرین کے جواب میں ثابت قدم رہے۔ [32] (جوہرہ وغیرہا)
مسئلہ ۲۵: ایک قبر میں ایک سے زیادہ بلا ضرورت دفن کرنا جائز نہیں اور ضرورت ہو تو کر سکتے ہیں، مگر دو میّتوں کے درمیان مٹی وغیرہ سے آڑ کر دیں اور کون آگے ہو کون پیچھے یہ اوپر مذکور ہوا۔[33] (عالمگیری)
مسئلہ ۲۶: جس شہر یا گاؤں وغیرہ میں انتقال ہوا وہیں کے قبرستان میں دفن کرنا مستحب ہے اگرچہ یہ وہاں رہتا نہ ہو، بلکہ جس گھر میں انتقال ہوا اس گھر والوں کے قبرستان میں دفن کریں اور دو ایک میل باہر لے جانے میں حرج نہیں کہ شہر کے قبرستان اکثر اتنے فاصلے پر ہوتے ہیں اور اگر دوسرے شہر کو اس کی لاش اٹھا لے جائیں تو اکثر علما نے منع فرمایا اور یہی صحیح ہے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ دفن سے پیشتر لے جانا چاہیں اور دفن کے بعد تو مطلقاً نقل کرنا ممنوع ہے، سوا بعض صورتوں کے جو مذکور ہوں گی۔ [34] (عالمگیری) اور یہ جو بعض لوگوں کا طریقہ ہے کہ زمین کو سپرد کرتے ہیں پھر وہاں سے نکال کر دوسری جگہ دفن کرتے ہیں، یہ ناجائز ہے اور رافضیوں کا طریقہ ہے۔
مسئلہ ۲۷: دوسرے کی زمین میں بلا اجازتِ مالک دفن کر دیا تو مالک کو اختیار ہے خواہ اولیائے میّت سے کہے اپنا مردہ نکال لو یا زمین برابر کر کے اس میں کھیتی کرے۔ يوہيں اگر وہ زمین شفعہ میں لے لی گئی یا غصب کيے ہوئے کپڑے کا کفن دیا تو مالک مردہ کو نکلوا سکتا ہے۔[35] (عالمگیری، ردالمحتار)
مسئلہ ۲۸: وقفی قبرستان میں کسی نے قبر طیار کرائی اس میں دوسرے لوگ اپنا مردہ دفن کرنا چاہتے ہیں اور قبرستان میں جگہ ہے، تو مکروہ ہے اور اگر دفن کر دیا تو قبر کھودوانے والا مردہ کو نہیں نکلوا سکتا جو خرچ ہوا ہے لے لے۔[36] (عالمگیری، ردالمحتار)
مسئلہ ۲۹: عورت کو کسی وارث نے زیور سمیت دفن کر دیا اور بعض ورثہ موجود نہ تھے ان ورثہ کو قبر کھودنے کی اجازت ہے، کسی کا کچھ مال قبر میں گرگیا مٹی دینے کے بعد یاد آیا تو قبر کھود کر نکال سکتے ہیں اگرچہ وہ ایک ہی درہم ہو۔[37] (عالمگیری، ردالمحتار)
مسئلہ ۳۰: اپنے ليے کفن تیار رکھے تو حرج نہیں اور قبر کھودوا رکھنا بے معنی ہے کیا معلوم کہاں مرے گا۔[38] (درمختار)
مسئلہ ۳۱: قبر پر بیٹھنا، سونا، چلنا، پاخانہ، پیشاب کرنا حرام ہے۔ قبرستان میں جو نیا راستہ نکالا گیا اس سے گزرنا ناجائز ہے، خواہ نیا ہونا اسے معلوم ہو یا اس کا گمان ہو۔[39] (عالمگیری، درمختار)
مسئلہ ۳۲: اپنے کسی رشتہ دار کی قبر تک جانا چاہتا ہے مگر قبروں پر گزرنا پڑے گا تو وہاں تک جانا منع ہے، دور ہی سے فاتحہ پڑھ دے، قبرستان میں جوتیاں پہن کر نہ جائے۔ ایک شخص کو حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے جوتے پہنے دیکھا، فرمایا: ”جوتے اتار دے، نہ قبر والے کو تُو ایذا دے، نہ وہ تجھے۔” [40]
مسئلہ ۳۳: قبر پر قرآن پڑھنے کے ليے حافظ مقرر کرنا جائز ہے۔[41](درمختار) یعنی جب کہ پڑھنے والے اُجرت پر نہ پڑھتے ہوں کہ اُجرت پر قرآن مجید پڑھنا اورپڑھوانا ناجائز ہے، اگر اُجرت پر پڑھوانا چاہے تو اپنے کام کاج کے ليے نوکر رکھے پھر یہ کام لے۔
مسئلہ ۳۴: شجرہ یا عہد نامہ قبر میں رکھنا جائز ہے اور بہتر یہ ہے کہ میّت کے مونھ کے سامنے قبلہ کی جانب طاق کھود کر اس میں رکھیں، بلکہ درمختار میں کفن پر عہد نامہ لکھنے کو جائز کہا ہے اور فرمایا کہ اس سے مغفرت کی امید ہے اور میّت کے سینہ اور پیشانی پر بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم لکھنا جائز ہے۔ ایک شخص نے اس کی وصیّت کی تھی، انتقال کے بعد سینہ اور پیشانی پر بسم اللہ شریف لکھ دی گئی پھر کسی نے انھيں خواب میں دیکھا، حال پوچھا؟ کہا: جب میں قبر میں رکھا گیا،عذاب کے فرشتے آئے، فرشتوں نے جب پیشانی پر بسم اللہ شریف دیکھی کہا تو عذاب سے بچ گیا۔ [42] (درمختار، غنیہ، عن التاتار خانیہ) یوں بھی ہو سکتا ہے کہ پیشانی پر بسم اللہ شریف لکھیں اور سینہ پر کلمہ طیبہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مگر نہلانے کے بعد کفن پہنانے سے پیشتر کلمہ کی انگلی سے لکھیں روشنائی سے نہ لکھیں۔ [43] (ردالمحتار) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ چہارم،صفحہ۸۴۲تا ۸۴۸)
[1] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل السادس، ج۱، ص۱۶۵. و ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن الميت، ج۳، ص۱۶۳.
[2] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن الميت، ج۳، ص۱۶۶.
[3] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن الميت، ج۳، ص۱۶۴.
[4] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل السادس، ج۱، ص۱۶۵.
[5] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۶۴.
[6] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل السادس، ج۱، ص۱۶۶. و ”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۶۵، وغيرہما.
[7] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ یعنی کچی۔
[8] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ يعنی مٹی کی لپائی۔
[9] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن الميت، ج۳، ص۱۶۵.
[10] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل السادس، ج۱، ص۱۶۶ ،وغيرہ.
[11] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل السادس، ج۱، ص۱۶۶.
[12] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۶۶، وغيرہ..
[13] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل السادس، ج۱، ص۱۶۶.
[14] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ”تنویر الأبصار” و ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن الميت، ج۳، ص۱۶۶. و ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل السادس، ج۱، ص۱۶۶.
[15] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن الميت، ج۳، ص۱۶۷. و ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل السادس، ج۱، ص۱۶۶.
[16] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ”الجوہرۃ النيرۃ”، کتاب الصلاۃ، باب الجنائز، ص۱۴۰.
[17] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن الميت، ج۳، ص۱۶۷.
[18] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن الميت، ج۳، ص۱۶۸. و ”الجوہرۃ النيرۃ”، کتاب الصلاۃ، باب الجنائز، ص۱۴۰.
[19] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ اسی سے ہم نے تم کو پیدا کیا۔ ۱۲
[20] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ اور اسی میں تم کو لوٹائیں گے۔ ۱۲
[21] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ اور اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے۔ ۱۲
[22] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ اے اللہ (عزوجل) ! زمین کو اس کے دونوں پہلوؤں سے کشادہ کر۔ ۱۲ عورت کے لئے ضمیر مؤنث ہو جَنْبَیْہَا، لِرُوْحِہَا۔ ۱۲
[23] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ اے اللہ (عزوجل) ! اس کی روح کیلئے آسمان کے دروازے کھول دے۔ ۱۲
[24] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ اے اللہ (عزوجل) ! حورعین کو اس کی زوجہ کر دے۔ ۱۲
[25] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ اے اللہ (عزوجل) ! اپنی رحمت سے تو اس کو جنت میں داخل کر دے۔ ۱۲
[26] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔”الجوہرۃ النيرۃ”، کتاب الصلاۃ، باب الجنائز، ص۱۴۱. و ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل السادس، ج۱، ص۱۶۶..
[27] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل السادس، ج۱، ص۱۶۶. و ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن الميت، ج۳، ص۱۶۸.
[28] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔”ردالمحتار” المرجع السابق، ص۱۶۵ و ”غنیۃ المتملي”، فصل في الجنائز، ص۶۰۷.
[29] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن الميت، ج۳، ص۱۶۹.
[30] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۷۰. و ”الجوہرۃ النيرۃ”، کتاب الصلاۃ، باب الجنائز، ص۱۴۱.
[31] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ”الجوہرۃ النيرۃ”، کتاب الصلاۃ، باب الجنائز، ص۱۴۱، وغیرہ..
[32] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[33] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل السادس، ج۱، ص۱۶۶.
[34] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل السادس، ج۱، ص۱۶۷.
[35] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، و ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن الميت، ج۳، ص۱۷۱.
[36] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل السادس، ج۱، ص۱۶۶. و ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن الميت، ج۳، ص۱۷۱.
[37] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل السادس، ج۱، ص۱۶۷. و ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن الميت، ج۳، ص۱۷۱.
[38] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۸۳.
[39] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل السادس، ج۱، ص۱۶۶. و ”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۸۳.
[40] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
[41] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۸۵.
[42] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، و ”الفتاوی التاتار خانیۃ”، کتاب الصلاۃ، الفصل الثاني، ج۲، ص۱۷۰.
[43] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: فيما يکتب علی کفن الميت، ج۳، ص۱۸۶.