کارکن اور اس کی خصوصیات:
کارکن اس شخص کو کہتے ہیں جو قیادت کی راہنمائی کے مطابق اس کے ساتھ پورے اخلاص سے منظم طور پر کام کرنے کا معاہدہ کرے۔
ایک تنظیمی کارکن میں کیا خصوصیات ہونی چاہیں ، آیئے ایک نظر ان کا جائزہ لیتے ہیں:
(1) الله تعالی پر کامل ایمان
ایک تنظیمی کارکن کا اللہ تعالی پرکامل ایمان ہونا چاہیے، اس کا عقیدہ ہو کہ الله تعالی ہر وقت اس کے ساتھ ہے۔ وہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام جیسے جذبئہ ایمانی کا مالک ہو، اس کا یہی جذ تنظیم کی کامیابی کی ضمانت ہے۔
(۲) انقلابی سوچ
ایک تنظیمی کارکن کے لیے ضروری ہے کہ اس میں انقلابی سوچ موجود ہو، وہ ہر طرح کی بادمخالف سے لڑنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہو۔ جس میں خوئے انقلاب نہ ہو وہ زندگی موت کے برابر ہے۔ قوموں کی حیات کشمکش انقلاب میں پوشیدہ ہے۔
(۳) یقیں محکم:
ایک تنظیمی کارکن کا اپنے نظریے پر چٹانوں کی طرح کا یقین ہونا چاہیے۔ وہ شکوک وشبہات کی پرچھائیوں سے بھی دور بھاگے۔ ساری دنیابھی اس کی مخالف ہوجائے تو وہ اپنے نظریے سے بال برابر بھی اِدھر اُدھر نہ ہو۔
(۴) بےلوث وابستگی:
تنظیمی کارکن کو کسی بھی قسم کی پرکشش مراعات کے دھوکے میں نہیں آنا چاہیے اور نہ ہی اپنے دین و ایمان اور نظریہ وتحر یک کا سودا کرنا چاہیے۔ وہ بکنے اور جھکنے سے بالکل پاک ہو۔ اگر اس کے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند بھی رکھ دیا جائے تو وہ اپنی بات سے ٹلنے والا نہ ہو۔ وہ بڑے سے بڑے فرعون کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی ہمت رکھتا ہو۔
(2) عمل پیہم:
ایک تنظیمی کارکن کو ہر وقت متحرک ہونا چاہیے۔ اس کی رگوں میں عمل پیہم کا کرنٹ دوڑتے پھرنا چاہیے۔ کام کے بغیر اسے چین نہیں آنا چاہیے۔ وہ سرتاپاتریک اور سرتا عمل ہو۔ کام اس کی گھٹی میں پڑا ہو۔ اس کو شکست دیناکسی کے بھی بس میں نہ ہو۔ اس کے پیش نظر ہمہ وقت سرکار دوعالم ﷺ کی ذات والا صفات ہو کہ آپ سارا سارا دن بھی مکہ کے گلی کوچوں میں بھی اردگردعلاقوں اور قلعوں میں بھی عکاظ ومجنہ کے بازاروں میں بھی طائف کی پرکھٹن راہوں میں کبھی مکہ سے مدینہ کے سفر ہجرت میں بھی بدر وأحد میں بھی احزاب وحدیبیہ ہیں اور کبھی فتح مکہ غزوحنین میں ہر ہری لمحہ متحرک نظر آتے ہیں۔
پھر یہی تہر یک صحابۂ کرام میں نظر آتی ہے، اگر ہم دور خلافت راشدہ کی تیز ترین فتوحات کا جائزہ لیں تو ان کے سامنے بجلیاں بھی شرماتی نظر آتی ہیں۔
(۵) اطاعت امیر
ایک تنظیمی کارکن میں اطاعت امیر کا جذبہ بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہونا چاہیے۔ وہ امیر کے ہر شرعی حکم کا اپنے آپ کو پابند جانے اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرے، حتی کہ راہ حق میں جان تک دینے کا حکم ہو تو وہ اس سے بھی دریغ نہ کرے۔
تنظیموں کی کامیابی میں اطاعت امیر کور یڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے بغیر کسی بھی تنظیم کی کامیابی کے امکانات بالکل مخدوش ہیں۔ جب تنظیمی کارکن میں اطاعت امیرکاجذبہ سرد پڑ جائے تو سمجھ لیجئے کہ تنظیم برباد ہوگئی اور اس کا مستقبل تاریک ہوگیا۔ حضور نے فرمایا: اگر تمہارے اوپر کی ناقص الاعضاء کوبھی امیر مقرر کر دیا جائے تو اس کی اطاعت کو لازم پکڑو۔ خوشی وغمی اورتلخ وشیریں ہر حالت میں اس کی فرمانبرداری کرو۔
(6) استغناء:
ایک تنظیمی کارکن کو دنیا کے ہر دکھ سکھ، ہرامن خوف اور ہر خوشی غمی سے بے نیاز ہونا چاہیے۔ وہ صرف اپنی منزل پہ نظر رکھے۔ کسی بھی قسم کی رکاوٹ اس کے آڑے نہیں آنی چاہیے۔ ذرا ایک نظر صحابہ کرام کے استغناء پہ ڈا لیے: ایک صحابی اپنی نئی نویلی دلہن کو چھوڑ کر جہاد میں پہنچ گئے۔ ایک صحابی نے بستر، آرام عیش، چین کی نیند لذیذ کھانے اور ٹھنڈا پانی چھوڑا اور گوڑا دوڑاتے ہوئے بارگاہ رسالت میں پہنچ گئے ۔ غزوہ تبوک میں سارے دن میں صرف ایک گھونٹ پانی اور ایک کھجور کا دانہ ملتامگر صحابہ اس پر اکتفا کرتے ہوئے مشن کی طرف بڑھتے رہے۔ بہت سے صحابہ نے جان، مال، اولاد، دکان، مکان، سامان سب کچھ دین مصطفی کے لیے قربان کر دیا۔
(7) رابطے کادھنی:
ایک تنظیمی کارکن کور ابطے کا دھنی ہونا چاہیے۔ وہ ہر وقت لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہے۔ ان کے دکھ سکھ میں شریک ہو۔ ہر بندے کی نفسیات کو سمجھے۔ ہر آدی سے اس کے ذہن کے مطابق بات کرے۔ رابطہ جتنا زیادہ مضبوط ہوگا کام اتنا آگے بڑھے گا اور رابطہ جتنا کمزور ہوگا اس تنظیم کا خسارہ و نقصان ہوگا۔ لہذا ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ ہر سطح کا رابطہ ہونا چاہے۔ رابطے کی کی زنجیرہی مختلف کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچاتی ہے اور بہت ہی آسانیوں کے دروازے کھولتی ہے۔ بقول اقبال
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریامیں، بیرون در یا کچھ نہیں
(۸) تربیتی اجتماعات میں شرکت:
ایک تنظیمی کارکن کوتربیتی اجتماعات میں لازمی شریک ہو کر تربیت حاصل کرنی چاہیے۔ قلم، کتاب ، ڈائری اس کے پاس ہونے چاہیئں ۔ وہ تمام ہدایات کو اپنی ڈائری میں لکھ لے اور ذہن میں اچھی طرح محفوظ کرلے تربیتی اجتماع کی کوئی ایک ہدایت بھی اس کے ذہن سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے، اس کی تو مکمل طور پر ہدایات کی طرف ہونی چاہیے۔
(9) اہلیت:
ایک کارکن کے لیے باصلاحیت اور اہل ہونا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ نا اہل اور با صلاحیت آ دمی ملک، ملت، خاندان، برادری تنظیم اور پارٹی کے لیے ایک عذاب سے کمنہیں ہوتا۔ اس کی وجہ سے سنورتے کام بھی بگڑ جاتے ہیں اور بنتے کام بھی خراب ہوجاتے ہیں۔ ایک اہل اور باصلاحیت کارکن اپنی خداداد صلاحیتوں سے ایسے ایسے حیرت انگیز کارنامے سرانجام دیتا ہے کہ ٹیم کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ لہذا ایک تنظیمی کارکن کو اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ اس کے لیے جہاں اسے مطالعہ، مشاہدہ اور تجر بہ فائدہ پہنچائیں گے وہاں کسی باصلاحیت کارکن یا لیڈر کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا، اس کے کاموں کا بغور جائزہ لینا اور اس کے تجربات سے فائدہ اٹھانا بھی حیرت انگیز حد تک مفید ثابت ہو گا۔ اس طرح تربیتی کورس میں باقاعد معلم فن سیکھنا بھی اہمیت حاصل کرنے کا بنیادی ذریعہ ہے۔
(۱۰) اخلاص وللہیت:
ایک تنظیمی کارکن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اخلاص وللہیت کے ساتھ کام کرے۔ اپنے کام کی تعریف کا متمنی نہ ہو اور نہ ہی اپنے اوپر قید و برا جانے۔ کیونکہ جو کام اس نے اللہ کی رضا کے لیے کیا ہے اس پراجر بھی الله تعالی ہی عطا فرمائے گا۔
جس کاعمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
اور اگر اس نے بندوں کی طرف سے کی گئی تعریف کو ہی اپنا اجر سمجھ لیا تو اسے اجرِ آخرت سے محرومی کا سامنا ہوگا۔ اپنا کام سرانجام دینے کے بعد بندوں سے اجرت طلب کرنايا عہدہ کی خواہش کرنايا تعریفی کلمات کا انتظارکر نارضائے الہی، اخلاص اورللہیت کے خلاف ہے۔ اگر کسی نے اس پرتنقید کر دی تواسے پریشان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جو کام اللہ کے لیے ہواس پرکوئی سو باربھی تنقید کر دے اس کا اجر نہیں چھینا جا سکتا۔ جس طرح ایک شیر خوار بچے کو نہ تعریف کا پتہ ہوتا ہے اور نہ ہی تنقید کا، اسی طرح اسے بھی ان چیزوں سے لاتعلق ہوجانا چاہیے۔ نہ تعریف اچھی لگنی چاہیے،نہ تنقید بری لگنی چاہیے۔
(11) نظریاتی ہونا:
کارکن اگر نظریاتی نہیں ہے تو خدا کی قسم وہ کارکن ہی نہیں ہے، انسان وہی کارآمد ہے جس کے دل ودماغ میں علمی و فکری اور دینی وایمانی نظریات راسخ ہو چکے ہوں، وہ کسی نظریے کا پابند ہو، اس کے فروغ کے لیے کام کرتا ہو، اس پر دل و جان سے فدا ہو، اس کے لیے اپنا سب کچھ صرف کر دینا سعادت سمجھتا ہو، وہ نظریے کے لیے ہی جیتا ہو اور اسی کے لیے مرتا ہو، اس پر اپنے سب مفادات کو قربان کرتا ہو، اس کی تر جیح اس کا نظریہ ہو، اس کی پہچان اس کا نظریہ ہو، اس کا ہدف اس کا نظریہ ہو، اس کی شناخت اور تعارف اس کا نظریہ ہو۔ جب ایک کارکن اس حد تک نظریاتی ہوتا ہے تو کام میں بہتری آتی ہے اور تنظیم ترقی کرتی ہے ورنہ غیرنظریاتی آدمی اس بھوسے کی طرح ہے جس پر ایک چنگاری بھی آن پڑے تو وہ جل کر راکھ ہو جا تا ہے۔
(۱۲) قوت برداشت اور موت سے بے خوفی:
ایک تنظیمی کارکن کو موت سے بے خوف ، نڈر اور بے باک ہونا چاہیے۔ سرکار دو عالم صلى الله عليہ وسلم کا فرمان مبارک ہے: اللہ کی راہ میں مجھے اتناڈرایادھمکایا گیا اور اتنی اذیتیں دی گئیں کہ کسی اور کو نہیں دی گئیں۔ تاریخ اٹھا کر دیکھیں، دین کا کام کرنے والوں کوا بلتے تیل میں بھی ڈالا گیا، جلتی ہوئی آگ میں بھی جھونکا گیا، پھانسیاں بھی دی گئیں، جسم پر آریاں بھی چلائی گئیں، میخیں بھی ٹھونکی گئیں، جیلوں میں بھی بند کیا گیا، انگاروں پر بھی لٹکایا گیا، کوڑے بھی مارے گئے۔مگر انہوں نے نہ تو موت کی پروا کی اور نہ ہی زخموں کو خاطر میں لائے۔
(۱۳) مال خرچ کرنے کا جذ بہ:
ایک تنظیمی کارکن کے اندر مال خرچ کرنے کا جذ ب بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہونا چا ہیے۔ رسول ﷺ نے بھی دین کے اوپر مال کوترجیح نہیں دی۔ صحابہ کرام ہمیشہ اپنا سب کچھ دین خدا کے لیے لٹاتے رہے۔ مشن سے زیادہ مال کی اہمیت نہیں ہے۔ اگر کوئی مشن کے اوپر مال کو ترجیح دیتا ہے تو وہ تنظیم کے لیے زہر قاتل ہے۔ اگر اس کی اصلاح ممکن نہ ہوتو اسے تنظیم سے فوری طور پر نکال دینا چاہیے کیونکہ ایسے شخص کو جب بھی موقع ملے گاو تنظیم کو کھائے گا تنظیم کے لیے تو صرف وہی شخص مفید ہے جو اپناسب کچھ راہ خدا میں لگانے کا جذ ب رکھتا ہو۔
(۱۴) وقت کا پابند:
ایک تنظیمی کارکن کے لیے وقت کی پابندی بھی ازحد ضروری ہے کیونکہ جو وقت کا پابند نہیں ہے وہ سو فیصد خسارے میں ہے۔ وہ تنظیم کے امور میں نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ نہ وہ اجلاس میں وقت پر پہنچتا ہے اور نہ کسی پروگرام میں وقت پر پہنچتا ہے۔ لوگ اس کے انتظار میں گھڑیاں دیکھ رہے ہوتے ہیں اور وہ اپنے اشغال میں مصروف ہوتا ہے۔ ایسے طرزعمل کی وجہ سے تنظیم کا نظام خراب ہوجاتا ہے۔