پانی کا بیان
اﷲ عَزَّ وَجَل فرماتا ہے:
(وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَهُوْرًاۙ(۴۸)) )پ:۱۹، الفرقان:۴۸.(
یعنی آسمان سے ہم نے پاک کرنے والا پانی اُتارا۔(بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ دول،صفحہ۳۲۸)
کس پانی سے وُضو جائز ہے اور کس سے نہیں
تنبیہ : جس پانی سے وُضو جائز ہے اس سے غُسل بھی جائز اور جس سے وُضو ناجائز غُسل بھی ناجائز۔
مسئلہ ۱ : مینھ، ندی، نالے، چشمے، سمندر، دریا، کوئیں اور برف، اولے کے پانی سے وُضو جائز ہے۔ [1]
مسئلہ ۲: جس پانی میں کوئی چیز مل گئی کہ بول چال میں اسے پانی نہ کہیں بلکہ اس کا کوئی اَور نام ہو گیا جیسے شربت، یا پانی میں کوئی ایسی چیز ڈال کر پکائیں جس سے مقصود میل کاٹنا نہ ہو جیسے شوربا، چائے، گلاب یااور عرق، اس سے وُضو و غُسل جائز نہیں۔ [2]
مسئلہ ۳ : اگر ایسی چیز ملائیں یا ملا کر پکائیں جس سے مقصود میل کاٹنا ہو جیسے صابون یا بیری کے پتے تو وُضو جائزہے جب تک اس کی رقت زائل نہ کر دے اور اگر ستُّو کی مثل گاڑھا ہو گیا تو وُضو جائز نہیں۔ [3]
مسئلہ ۴ : اور اگر کوئی پاک چیز ملی جس سے رنگ یا بویا مزے میں فرق آگیا مگر اس کا پتلا پَن نہ گیا جیسے ریتا، چونا یا تھوڑی زعفران تو وُضو جائز ہے اور جو زعفران کا رنگ اتنا آجائے کہ کپڑا رنگنے کے قابل ہو جائے تو وُضو جائز نہیں۔ یوہیں پڑیا کا رنگ اور اگر اتنا دودھ مل گیا کہ دودھ کا رنگ غالب نہ ہوا تو وُضو جائز ہے ورنہ نہیں۔ غالب مغلوب کی پہچان یہ ہے کہ جب تک یہ کہیں کہ پانی ہے جس میں کچھ دودھ مل گیا تو وُضو جائز ہے اور جب اسے لسّی کہیں تو وُضو جائز نہیں اور اگر پتے گرنے یا پُرانے ہونے کے سبب بدلے تو کچھ حَرَج نہیں مگر جب کہ پتے اسے گاڑھا کر دیں۔ [4]
مسئلہ ۵: بہتا پانی کہ اس میں تنکا ڈال دیں تو بہالے جائے پاک اور پاک کرنے والا ہے، نَجاست پڑنے سے ناپاک نہ ہو گا جب تک وہ نجس اس کے رنگ یا بو یا مزے کو نہ بدل دے، اگر نجس چیز سے رنگ یا بو یا مزہ بدل گیا تو ناپاک ہو گیا، اب یہ اس وقت پاک ہو گا کہ نَجاست تہ نشین ہو کر اس کے اوصاف ٹھیک ہو جائیں یا پاک پانی اتنا ملے کہ نَجاست کو بہالے جائے یا پانی کے رنگ، مزہ، بُو ٹھیک ہو جائیں اور اگر پاک چیز نے رنگ، مزہ، بوُ کو بدل دیا تو وُضو غُسل اس سے جائز ہے جب تک چیز دیگر نہ ہو جائے۔ [5]
مسئلہ ۶: مردہ جانور نہر کی چوڑائی میں پڑا ہے اور اس کے اوپر سے پانی بہتا ہے تو عام ازیں کہ جتنا پانی اس سے مل کر بہتا ہے اس سے کم ہے جو اس کے اوپر سے بہتا ہے یا زائد ہے یا برابر مطلقاً ہر جگہ سے وُضو جائز ہے یہاں تک کہ موقع نجاست سے بھی جب تک نَجاست کے سبب کسی وصف میں تغیّر نہ آئے یہی صحیح ہے [6] اور اسی پر اعتماد ہے۔ [7]
مسئلہ ۷: چھت کے پَرنالے سے مینھ کاپانی گرے وہ پاک ہے اگرچہ چھت پر جابجا نَجاست پڑی ہو اگرچہ نَجاست پرنالے کے مونھ پر ہو اگرچہ نَجاست سے مل کر جو پانی گرتا ہو وہ نصف سے کم یا برابر یا زِیادہ ہو جب تک نَجاست سے پانی کے کسی وصف میں تَغیّر نہ آئے یہی صحیح ہے [8] اور اسی پر اعتماد ہے اور اگر مینھ رک گیا اور پانی کا بہنا موقوف ہو گیا تو اب وہ ٹھہرا ہواپانی اور جو چھت سے ٹپکے نجس ہے۔ [9]
مسئلہ ۸: یوہیں نالیوں سے برسات کا بہتا پانی پاک ہے جب تک نَجاست کا رنگ یا بو یا مزہ اس میں ظاہر نہ ہو، رہا اس سے وُضو کرنا اگر اس پانی میں نَجاست مرئیہ کے اجزا ایسے بہتے جارہے ہوں کہ جو چُلّو لیا جائے گا اس میں ایک آدھ ذرّہ اس کا بھی ضرور ہوگا جب تو ہاتھ میں لیتے ہی ناپاک ہو گیا وُضو اس سے حرام ورنہ جائز ہے اور بچنا بہتر ہے۔ [10]
مسئلہ ۹: نالی کا پانی کہ بعد بارش کے ٹھہر گیا اگر اس میں نَجاست کے اجزا محسوس ہوں یا اس کا رنگ و بُو محسوس ہو تو ناپاک ہے ورنہ پاک۔ [11]
مسئلہ ۱۰: دس ہاتھ لنبا، دس ہاتھ چوڑا جو حوض ہو اسے دَہ در دَہ اور بڑا حوض کہتے ہیں۔ یوہیں بیس ۲۰ ہاتھ لنبا، پانچ ہاتھ چوڑا، یا پچیس ہاتھ لنبا، چار ہاتھ چوڑا، غرض کل لنبائی چوڑائی سو ہاتھ ہو [12]اور اگر گول ہو تو اس کی گولائی تقریباً ساڑھے پینتیس ہاتھ ہو اور سو ہاتھ لنبائی نہ ہو تو چھوٹا حوض ہے اور اس کے پانی کو تھوڑا کہیں گے اگرچہ کتناہی گہرا ہو۔
تنبیہ: حوض کے بڑے چھوٹے ہونے میں خود اس حوض کی پیمائش کا اعتبار نہیں، بلکہ اس میں جو پانی ہے اس کی بالائی سطح دیکھی جائے گی، تو اگر حوض بڑا ہے مگر اب پانی کم ہو کر دَہ در دَہ نہ رہا تو وہ اس حالت میں بڑ ا حوض نہیں کہا جائے گا، نیز حوض اسی کو نہیں کہیں گے جو مسجدوں، عیدگاہوں میں بنالیے جاتے ہیں بلکہ ہر وہ گڑھا جس کی پیمائش سو ۱۰۰ ہاتھ ہے بڑا حوض ہے ا ور اس سے کم ہے تو چھوٹا۔[13]
مسئلہ ۱۱: دَہ در دَہ[14]حوض میں صرف اتنا دَل درکار ہے کہ اتنی مساحت میں زمین کہیں سے کھلی نہ ہو اور یہ جوبہت کتابوں میں فرمایا ہے کہ لَپ یا چُلّو میں پانی لینے سے زمین نہ کُھلے اس کی حاجت اس کے کثیر رہنے کے لیے ہے کہ وقتِ استعمال اگر پانی اُٹھانے سے زمین کُھل گئی تو اس وقت پانی سو ۱۰۰ ہاتھ کی مساحت میں نہ رہا ایسے حوض کا پانی بہتے پانی کے حکم میں ہے، نَجاست پڑنے سے ناپاک نہ ہو گا جب تک نَجاست سے رنگ یا بُو یا مزہ نہ بدلے اور ایسا حوض اگرچہ نَجاست پڑنے سے نجس نہ ہو گا مگر قصداً اس میں نَجاست ڈالنا منع ہے۔ [15]
مسئلہ ۱۲: بڑے حوض کے نجس نہ ہونے کی یہ شرط ہے کہ اس کا پانی متصل ہو توایسے حوض میں اگر لٹھے یا کَڑیاں گاڑی گئی ہوں تو اُن لٹھوں کڑیوں کے علاوہ باقی جگہ اگر سو ۱۰۰ ہاتھ ہے تو بڑا ہے ورنہ نہیں، البتہ پتلی پتلی چیزیں جیسے گھاس، نرکل، کھیتی، اس کے اتصال کو مانع نہیں۔ [16]
مسئلہ ۱۳: بڑے حوض میں ایسی نَجاست پڑی کہ دکھائی نہ دے جیسے شراب، پیشاب تو اس کی ہر جانب سے وُضو جائز ہے اور اگر دیکھنے میں آتی ہو جیسے پاخانہ،یا کوئی مَرا ہوا جانور، تو جس طرف وہ نَجاست ہو اس طرف وُضو نہ کرنا بہتر ہے دوسری طرف وُضو کرے۔[17]
تنبیہ : جو نَجاست دکھائی دیتی ہے اس کو مرئیہ اور جو نہیں دکھائی دیتی اسے غیر مرئیہ کہتے ہیں۔
مسئلہ ۱۴: ایسے حوض پر اگر بہت سے لوگ جمع ہو کر وُضو کریں تو بھی کچھ حَرَج نہیں اگرچہ وُضو کا پانی اس میں گرتا ہو، ہاں اس میں کُلّی کرنا یا ناک سنکنا نہ چاہیے کہ نظافت کے خلاف ہے۔ [18]
مسئلہ ۱۵: تالاب یا بڑا حوض اُوپر سے جَم گیا مگر بَرف کے نیچے پانی کی لنبائی چوڑائی متصل بقدرِ دَہ در دَہ ہے اور سوراخ کرکے اس سے وُضو کیا جائز ہے اگرچہ اس میں نَجاست پڑ جائے اور اگر متصل دَہ در دَہ نہیں اور اس میں نَجاست پڑی تو ناپاک ہے، پھراگر نَجاست پڑنے سے پہلے اس میں سوراخ کر دیا اور اس سے پانی اُبل پڑا تو اگر بقدر دَہ در دَہ پھیل گیا تو اب نَجاست پڑنے سے بھی پاک رہے گا اور اس میں دَل کا وہی حکم ہے جو اوپر گزرا۔ [19]
مسئلہ ۱۶: اگر تالابِ خشک میں نَجاست پڑی ہو اور مینھ برسا اور اس میں بہتا ہوا پانی پاک اس قدر آیا کہ بہاؤ رکنے سے پہلے دَہ در دَہ ہو گیا تو وہ پانی پاک ہے اوراگر اس مینھ سے دَہ در دَہ سے کم رہا دوبارہ بارش سے دَہ در دَہ ہوا تو سب نجس ہے۔ ہاں اگر وہ بھر کر بہ جائے تو پاک ہو گیا اگرچہ ہاتھ دو ہاتھ بہا ہو۔ [20]
مسئلہ ۱۷: دَہ در دَہ پانی میں نَجاست پڑی پھر اس کا پانی دہَ دردَہ سے کم ہو گیا تو وہ اب بھی پاک ہے[21] ہاں اگر وہ نَجاست اب بھی اس میں باقی ہو اور دکھائی دیتی ہو تو اب ناپاک ہو گیا اب جب تک بھر کربہ نہ جائے پاک نہ ہوگا۔
مسئلہ ۱۸: چھوٹا حوض ناپاک ہو گیا پھر اس کا پانی پھیل کر دہ در دہ ہو گیا تو اب بھی ناپاک ہے مگر پاک پانی اگراسے بہا دے تو پاک ہو جائے گا۔ [22]
مسئلہ ۱۹: کوئی حوض ایساہے کہ اُوپر سے تنگ اور نیچے کشادہ ہے یعنی اوپر دَہ در دَہ نہیں اور نیچے دَہ دردَہ یازِیادہ ہے۔اگر ایسا حوض لبریز ہو اور نَجاست پڑے توناپاک ہے پھر اُس کا پانی گَھٹ گیا اور وہ دَہ در دَہ ہو گیا تو پاک ہوگیا۔ [23]
مسئلہ ۲۰: حُقّہ کا پانی پاک ہے [24] اگرچہ اس کے رنگ، و بُو، و مزے میں تغیر آجائے اس سے وُضو جائز ہے۔ بقدرِ [25] کفایت اس کے ہوتے ہوئے تیمم جائز نہیں۔ [26]
مسئلہ ۲۱: جو پانی وُضو یاغُسل کرنے میں بدن سے گرا وہ پاک ہے مگر اس سے وُضو اور غُسل جائز نہیں۔ یوہیں اگر بے وُضو شخص کا ہاتھ یا انگلی یا پَورایا ناخن یا بدن کا کوئی ٹکڑا جو وُضو میں دھویا جاتا ہو بقصد یا بلا قصد دَہ در دَہ سے کم پانی میں بے دھوئے ہوئے پڑ جائے تو وہ پانی وُضو اور غُسل کے لائق نہ رہا۔ اسی طرح جس شخص پر نہانا فرض ہے اس کے جِسْم کا کوئی بے دُھلاہوا حصہ پانی سے چھو جائے تو وہ پانی وُضو اور غُسل کے کام کانہ رہا۔ اگر دُھلا ہوا ہاتھ یا بدن کا کوئی حصہ پڑ جائے تو حَرَج نہیں۔ [27]
مسئلہ ۲۲: اگر ہاتھ دھلا ہوا ہے مگر پھر دھونے کی نیت سے ڈالا اور یہ دھونا ثواب کا کام ہوجیسے کھانے کے لیے یا و ضو کے لیے تو یہ پانی مُستَعمَل ہو گیا یعنی وُضو کے کام کا نہ رہا اور اس کو پینا بھی مکروہ ہے۔
مسئلہ ۲۳: اگر بضرورت ہاتھ پانی میں ڈالا جیسے پانی بڑے برتن میں ہے کہ اسے جھکا نہیں سکتا، نہ کوئی چھوٹا برتن ہے کہ اس سے نکالے تو ایسی صورت میں بقدرِ ضرورت ہاتھ پانی میں ڈال کر اس سے پانی نکالے یا کوئیں میں رسّی ڈول گِر گیا اور بے گُھسے نہیں نکل سکتا اَور پانی بھی نہیں کہ ہاتھ پاؤ ں دھو کر گُھسے، تو اس صورت میں اگر پاؤں ڈال کر ڈول رسّی نکالے گا مُستَعمَل نہ ہوگا ان مسئلوں سے بہت کم لوگ واقف ہیں خیال رکھنا چاہیے۔ [28]
مسئلہ ۲۴: مستعمل پانی اگر اچھے پانی میں مل جائے مثلاً وُضو یا غُسل کرتے وقت قطرے لوٹے یا گھڑے میں ٹپکے، تواگر اچھا پانی زِیادہ ہے تویہ وُضو اورغُسل کے کام کا ہے ورنہ سب بے کا ر ہوگیا۔ [29]
مسئلہ ۲۵: پانی میں ہاتھ پڑگیایا اَور کسی طرح مستعمل ہو گیا اور یہ چاہیں کہ یہ کام کا ہو جائے تو اچھا پانی اس سے زِیادہ اس میں مِلادیں، نیز اس کا یہ طریقہ بھی ہے کہ اس میں ایک طرف سے پانی ڈالیں کہ دوسری طرف سے بہ جائے سب کام کا ہو جائے گا۔یوہیں ناپاک پانی کو بھی پاک کر سکتے ہیں۔ [30] یوہیں ہر بہتی ہوئی چیز اپنی جنس یا پانی سے اُبال دینے سے پاک ہو جائے گی۔
مسئلہ ۲۶: کسی درخت یا پھل کے نچوڑے ہوئے پانی سے وُضو جائز نہیں جیسے کیلے کا پانی یا انگور اور انار اور تربُز کا پانی اور گنّے کا رس۔[31]
مسئلہ ۲۷: جو پانی گرم ملک میں گرم موسم میں سونے چاندی کے سوا کسی اور دھات کے برتن میں دھوپ میں گرم ہو گیا، تو جب تک گرم ہے اس سے وُضو اور غُسل نہ چاہیے، نہ اس کو پینا چاہیے بلکہ بدن کو کسی طرح پہنچنا نہ چاہیے، یہاں تک کہ اگر اس سے کپڑ ا بھیگ جائے تو جب تک ٹھنڈا نہ ہو لے اس کے پہننے سے بچیں کہ اس پانی کے استعمال میں اندیشہ ئبرص ہے پھر بھی اگر وُضو یا غُسل کر لیا تو ہو جائے گا۔ [32]
مسئلہ ۲۸: چھوٹے چھوٹے گڑھوں میں پانی ہے اور اس میں نَجاست پڑنا معلوم نہیں تو اس سے وُضو جائز ہے۔[33]
مسئلہ ۲۹: کافر کی خبر کہ یہ پانی پاک ہے یاناپاک مانی نہ جائے گی، دونوں صورتوں میں پاک رہے گا کہ یہ اس کی اصلی حالت ہے۔[34]
مسئلہ ۳۰: نابالغ کا بھرا ہوا پانی کہ شرعاً اس کی مِلک ہو جائے، اسے پینا یا وُضو یا غُسل یا کسی کام میں لانا اس کے ماں باپ یا جس کا وہ نوکر ہے اس کے سوا کسی کو جائز نہیں اگرچہ وہ اجازت بھی دے دے، اگر وُضو کر لیا تو وُضو ہو جائے گا اور گنہگار ہو گا، یہاں سے مُعلّمین کو سبق لینا چاہیے کہ اکثر وہ نابالغ بچوں سے پانی بھروا کر اپنے کام میں لایا کرتے ہیں۔ اسی طرح بالغ کابھرا ہوا بغیر اجازت صرف کرنا بھی حرام ہے۔[35]
مسئلہ ۳۱: نَجاست نے پانی کا مزہ، بُو، رنگ بدل دیا تو اس کو اپنے استعمال میں بھی لانا ناجائز اور جانوروں کو پلانا بھی، گارے وغیرہ کے کام میں لاسکتے ہیں مگر اس گارے مٹی کو مسجد کی دیوار وغیرہ میں صرف کرنا جائز نہیں۔ [36](بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ دوم،صفحہ۳۲۹تا۳۳۵)
[1] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، ج۱، ص۳۵۷.
[2] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار” و”ردالمحتار”، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب في حدیث ((لا تسموا العنب الکرم))، ج۱، ص۳۶۰.
[3] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار”، المرجع السابق، ص۳۸۵.
[4] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار” و”ردالمحتار”، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب في أن التوضی من العوض… إلخ، ج۱، ص۳۶۹.
[5] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار” و”ردالمحتار”، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب في أن التوضی من العوض… إلخ، ج۱، ص۳۷۰.
[6] ۔۔۔۔۔۔ درمختار میں ہے کہ علامہ قاسم نے فرمایا یہی مختار ہے اور نہرالفائق میں اسی کو قوی بتایا اورنصاب پھر مضمرات پھر قہستانی میں فرمایا اسی پر فتویٰ ہے۔۱۲منہ
[7] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار” و”ردالمحتار”، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب: الأصح أنہ لا یشترط في الجریان المدد، ج۱، ص۳۷۲.
[8] ۔۔۔۔۔۔ ھکذا في ردالمحتار عن الحلیۃ وفي الھندیۃ عن المحیط والعتابیۃ والتاتارخانیہ ۔۱۲منہ حفظہ ربہ
[9] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث في المیاہ، الفصل الأول، ج۱، ص۱۷.
[10] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الرضویۃ” ، ج۲، ص۳۸.
[11] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[12] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الرضویۃ”، ج۲، ص۲۷۴،۲۸۷.
[13] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار” و”ردالمحتار”، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب: لو دخل الماء من اعلی… إلخ، ج۱، ص۳۷۸. و ”الفتاوی الرضویۃ”، ج۲، ص۲۷۴.
[14] ۔۔۔۔۔۔ والمسأالۃ مصرحۃ في ہبۃ الجیر بما لامزید علیہ من شاء الا طلاع فلیر اجع الیھا. ۱۲ منہ حفظہ ربہ
[15] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الرضویۃ”، ج۲، ص۲۷۴.
[16] ۔۔۔۔۔۔”خلاصۃ الفتاوی”، کتاب الطہارات، ج۱، ص۴. و”الفتاوی الرضویۃ”، ج۲، ص۱۸۹.
[17] ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار” و”ردالمحتار”، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب: لو دخل الماء من اعلی… إلخ، ج۱، ص۳۷۵.
[18] ۔۔۔۔۔۔ ”منیۃ المصلي”، فصل في الحیاض، الحوض إذا کان عشرا في عشر، ص۶۷. و”الفتاوی الرضویۃ”، ج۲، ص۲۷۲.
[19] ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار” و”ردا لمحتار”، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب: لودخل الماء من اعلی… إلخ، ج۲، ص۳۸۰.
[20] ۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الرضویۃ”، ج۲، ص۳۷۰.
[21] ۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث في المیاہ، الفصل الأوّل، ج۱، ص۱۹.
[22] ۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث في المیاہ، الفصل الأوّل، ج۱، ص ۱۹، ۱۷.
[23] ۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث، الفصل الأول، ج۱، ص۱۹.
[24] ۔۔۔۔۔۔ کہ پانی پاک ہے جب تک اس کو نَجاست سے ملاقات نہ ہو نجس نہیں ہوسکتا اوریہاں کونسی نجس شے ہے جس کی ملاقات سے یہ پانی نجس ہوگا۔ ۱۲منہ
[25] ۔۔۔۔۔۔ مثلاً سارا وضو کرلیا ایک پاؤں کا دھونا باقی ہے کہ پانی ختم ہوگیا اورحقہ میں پانی اتنا موجود ہے کہ اس پاؤں کو دھو سکتا ہے تو اسے تیمم جائز نہیں مگر وضو کرنے کے بعد اگر اعضا میں بو آگئی تو جب تک بو جاتی نہ رہے مسجد میں جانا منع ہے اوروقت میں گنجائش ہوتو اتنا وقفہ کر کے نماز پڑھے کہ بُو اڑ جائے اوراس سے وضوکرنے کا حکم اس وقت دیا گیا کہ دوسرا پانی نہ ہو بلا ضرورت اس سے وُضو نہ چاہیے۔ ۱۲ منہ
[26] ۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الرضویۃ”، ج۲، ص۳۲۰.
[27] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الرضویۃ”، ج۲، ص۴۳ . مستعمل پانی کے بارے میں تفصیلی معلومات کے لیے فتاویٰ رضویہ جلد2 صَفْحَہ 43تا248 ملاحظہ فرمایئے۔
[28] ۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الرضویۃ”، ج۲، ص۱۱۷.
[29] ۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الرضویۃ”، ج۲، ص۲۲۰.
[30] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۱۲۰.
[31] ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار” و”ردالمحتار”، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، ج۱، ص۳۵۹.
[32] ۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الرضویۃ”، ج۲، ص۴۶۴.
[33] ۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث، الفصل الثاني، ج۱، ص۲۵.
[34] ۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الکراہیۃ، الباب الأول، ج۵، ص۳۰۸.
[35] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الرضویۃ”، ج۲، ص۵۲۷.
[36] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث، الفصل الثاني، ج۱، ص۲۵.