نِفاس کا بیان
بچّہ ہونے کے بعدعورت کے آگے کے مقام سے جو خون آتا ہے وہ نفاس کہلاتا ہے۔(عالمگیری ج۱ ص۳۷) (اسلامی بہنوں کی نماز ،صفحہ ۲۱۸)
نِفاس کس کو کہتے ہیں یہ ہم پہلے بیان کر آئے، اب اس کے متعلق مسائل بیان کرتے ہیں:
مسئلہ ۱: نِفاس میں کمی کی جانب کوئی مدت مقرر نہیں، نصف سے زِیادہ بچہ نکلنے کے بعد ایک آن بھی خون آیا تو وہ نِفاس ہے اور زِیادہ سے زِیادہ اس کا زمانہ چالیس ۴۰ دن رات ہے اور نِفاس کی مدت کا شمار اس وقت سے ہو گا کہ آدھے سے زِیادہ بچہ نکل آیا اور اس بیان میں جہاں بچہ ہونے کا لفظ آئے گا اس کا مطلب آدھے سے زِیادہ باہر آجانا ہے۔ [1]
مسئلہ ۲: کسی کو چالیس ۴۰ دن سے زِیادہ خون آیا تو اگر اس کے پہلی باربچہ پیدا ہوا ہے یا یہ یاد نہیں کہ اس سے پہلے بچہ پیدا ہونے میں کتنے دن خون آیا تھا، تو چالیس ۴۰ دن رات نِفاس ہے باقی اِستحاضہ اور جو پہلی عادت معلوم ہو تو عادت کے دنوں تک نِفاس ہے اور جتنا زِیادہ ہے وہ اِستحاضہ، جیسے عادت تیس ۳۰ دن کی تھی اس بار پینتالیس ۴۵ دن آیا تو تیس ۳۰ دن نِفاس کے ہیں اور پندرہ ۱۵ اِستحاضہ کے۔ [2]
مسئلہ ۳: بچہ پیدا ہونے سے پیشتر جو خون آیا نِفاس نہیں بلکہ اِستحاضہ ہے اگرچہ آدھا باہر آگیا ہو۔ [3]
مسئلہ ۴: حمل ساقط ہو گیا اور اس کا کوئی عُضْوْ بن چکا ہے جیسے ہاتھ، پاؤں یا انگلیاں تو یہ خون نِفاس ہے۔ [4] ورنہ اگر تین دن رات تک رہا اور اس سے پہلے پندرہ دن پاک رہنے کا زمانہ گزر چکا ہے تو حَیض ہے اور جو تین دن سے پہلے ہی بند ہو گیا یا ابھی پورے پندرہ دن طہارت کے نہیں گزرے ہیں تو اِستحاضہ ہے۔
مسئلہ ۵: پیٹ سے بچہ کاٹ کر نکالا گیا، تو اس کے آدھے سے زِیادہ نکالنے کے بعد نِفاس ہے۔ [5]
مسئلہ ۶: حمل ساقط ہونے سے پہلے کچھ خون آیاکچھ بعد کو، تو پہلے والا اِستحاضہ ہے بعد والا نفاس، یہ اس صورت میں ہے جب کوئی عُضْوْ بن چکا ہو، ورنہ پہلے والا اگر حَیض ہو سکتا ہے تو حَیض ہے نہیں تو اِستحاضہ۔ [6]
مسئلہ ۷: حمل ساقط ہوا اور یہ معلوم نہیں کہ کوئی عُضْوْ بنا تھا یا نہیں ،نہ یہ یاد کہ حمل کتنے دن کا تھا (کہ اسی سے عُضْوْ کا بننا نہ بننا معلوم ہو جاتایعنی ایک سو بیس ۱۲۰ دن ہو گئے ہیں تو عُضْوْ بن جانا قرار دیا جائے گا) اور بعد اسقاط کے خون ہمیشہ کو جاری ہوگیا تو اسے حَیض کے حکم میں سمجھے ،کہ حَیض کی جو عادت تھی اس کے گزرنے کے بعد نہا کر نماز شروع کردے اور عادت نہ تھی تو دس دن کے بعد اور باقی وہی اَحْکام ہیں جو حَیض کے بیان میں مذکور ہوئے۔ [7]
مسئلہ ۸: جس عورت کے دو ۲ بچے جوڑواں پیدا ہوئے یعنی دونوں کے درمیان چھ ۶ مہینے سے کم زمانہ ہے تو پہلا ہی بچہ پیدا ہونے کے بعد سے نِفاس سمجھا جائے گا، پھر اگر دوسرا چالیس ۴۰ دن کے اندر پیدا ہوا اور خون آیا تو پہلے سے چالیس ۴۰ دن تک نِفاس ہے، پھر اِستحاضہ اور اگر چالیس دن کے بعد پیدا ہوا تو اس پچھلے کے بعد جو خون آیا اِستحاضہ ہے نِفاس نہیں مگر دوسرے کے پیدا ہونے کے بعد بھی نہانے کا حکم دیا جائے گا۔ [8]
مسئلہ ۹: جس عورت کے تین بچے پیدا ہوئے کہ پہلے اور دوسرے میں چھ مہینے سے کم فاصلہ ہے۔ یوہیں دوسرے اور تیسرے میں اگرچہ پہلے اور تیسرے ۳ میں چھ مہینے کا فاصلہ ہوجب بھی نِفاس پہلے ہی سے ہے[9] ، پھر اگر چالیس ۴۰ دن کے اندر یہ دونوں بھی پیدا ہوگئے تو پہلے کے بعد سے بڑھ سے بڑھ چالیس ۴۰ دن تک نِفاس ہے اور اگر چالیس ۴۰ دن کے بعد ہیں تو ان کے بعد جو خون آئے گا اِستحاضہ ہے مگر ان کے بعد بھی غُسل کا حکم ہے۔
مسئلہ ۱۰: اگر دونوں میں چھ مہینے یا زِیادہ کا فاصلہ ہے تو دوسرے کے بعد بھی نِفاس ہے۔[10]
مسئلہ ۱۱: چالیس دن کے اندر کبھی خون آیا کبھی نہیں تو سب نِفاس ہی ہے اگرچہ پندرہ ۱۵ دن کا فاصلہ ہو جائے۔ [11]
مسئلہ ۱۲: اس کے رنگ کے متعلق وہی اَحْکام ہیں جو حَیض میں بیان ہوئے۔(بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ دوم،صفحہ۳۷۷، ۳۷۸)
[1] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الطہارۃ، الباب السادس في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الثاني، ج۱، ص۳۷.
[2] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[3] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی التاتارخانیۃ”، کتاب الطہارۃ، نوع آخر في النفاس، ج۱، ص۳۹۳.
[4] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الطہارۃ، الباب السادس في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الثاني، ج۱، ص۳۷.
[5] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[6] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الطہارۃ، الباب السادس في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الثاني، ج۱، ص۳۷.
[7] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی التاتارخانیۃ”، کتاب الطہارۃ، نوع آخر في النفاس، ج۱، ص۳۹۴.
[8] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الطہارۃ، الباب السادس في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الثاني، ج۱، ص۳۷.
[9] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[10] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[11] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الطہارۃ، الباب السادس في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الثاني، ج۱، ص۳۷.