نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ کرام علیہم الرضوان کا سیاست سے گہرا تعلق ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا سیاست سے تعلق

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  بطور قائدسیاست:

          مسلمانوں کے لیے اسوہ حسنہ سرکار دو عالمﷺ کی ذات اقدس ہے۔ اگر ہم غور کریں تو آپﷺ کی ساری زندگی معاشرے کے سیاسی معاملات سلجھاتی نظر آتی ہے۔ آپ نہ صرف خودسیاست میں حجت کاملہ تھے بلکہ آپ نے عرب کے ان قبائلی لوگوں کو جنہیں نہ تو سیاست کی ابجد کاعلم تھا اور نہ ہی ان کے پاس کوئی اجتماعی ضابطہ حیات تھا۔ وہ اس دور کی بڑی بڑی سیاسی طاقتوں کے مقابلے میں ایک بکھری ہوئی، دور افتادہ اور پس ماندہ قوم تھے۔ آپ نے انہیں اپنی اعلیٰ حکمت وتربیت کے ذریعے سیاست کا ایسا بہترین اور زبردست شعور عطا فرمایا کہ وہ دنیا کے فاتح بن گئے۔

          آپ کے ہر ہرقول اور ہر ہر فعل سے اعلیٰ سیاسی شعور جھلکتا تھا۔ آپ مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست کے پہلے با قاعدہ حکمران تھے۔ مکہ کو چھوڑ کر مدینہ  کی طرف ہجرت، میثاق مدینہ، مواخات مد ینہ ، معاہدے کی خلاف ورزی پر یہودی قبائل بنو قینقاع، بنونضیر اور بنوقریظہ کو پوری طاقت کے ساتھ محاصرہ کر کے مدینے سے نکالنا، 27 غزوات اور47سرایا، حدود الله کا عملی نفاذ، حدیبیہ میں قریش مکہ کے ساتھ مذاکرات اور معاہدہ ، ہزاروں صحابہ کرام کی قیادت فرماتے ہوئے مکہ کی فتح، مختلف قبائل کے ساتھ سینکڑوں معاہدات، یہ سب آپ کی سیاسی سرگرمیوں کی چند جھلکیاں ہیں۔

انبیائے کرام، اپنی اپنی امتوں کے سیاسی امام:

          تمام انبیاء کرام بھی اپنی اپنی امت کے سیاسی مدبرین تھے۔ رسول اللہ ﷺکا فرمان مبارک ہے کانت بنو اسرائیل تسوسهم الأنبياء یعنی بنی اسرائیل کے انبیاء اپنی اپنی قوموں کے سیاست دان تھے۔ حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام کی حکمرانی، حضرت سیدنا داؤد  علیہ السلام  کی خلافت، حضرت سیدنا یوسف  علیہ السلام  کا مملکت  کے نظام کو سنبھالنا، حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام  کا نمرد سے ٹکرانا ، حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام  کا بنی اسرائیل کی آزادی کے لیے فرعون اور اس کے وزیروں مشیروں کے خلاف آواز حق بلند کرنا، حضرت سیدنا یوشع  علیہ السلام کا طالوت کو اللہ تعالی کے حکم کے مطابق بنی اسرائیل کا حکمران مقرر کرنا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کا دنیامیں دوبارہ تشریف لانے کے بعد دجال سے مقابلہ کر کے ساری روئے زمین پر اسلام نافذ کرنا، یہ سب قرآن وحدیث سے انبیائے کرام کی سیاست کی چند مثالیں ہیں۔

صحابہ کرام، تاجداران سیاست:

          حضو کے وصال کے بعد آپ کے تربیت یافتہ خلفاء راشدین وقت کے حکمران بنے اور ساری دنیا میں ان کے سیاسی تدبیروتدبرکاڈنکا بج گیا۔ انہوں نے منہاج نبوت کے مطابق جس طرح کا بے مثال نظام حکومت قائم کیاوہ رہتی دنیا تک کے لیے منارہ نور اورشعل راہ ہے۔ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ  کے ساتھ معاہدہ کیا اور ان کے حق میں خلافت سے دستبردار ہو گئے ، یہ بھی بے مثال سیاسی بصیرت کا بہترین عملی مظاہرہ ہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ  نے یزیدی حکومت کے خلاف خروج و اقدام کیا اور میدان کربلا میں یزیدیت کے خلاف جرات و استقامت کی چٹان بن گئے، یہ قیامت تک کے لیے باطل حکومتوں کے خلاف آواز بلند کرنے کی لازوال بنیاد ہے۔

سیاسی قوت کا حصول ضروری کیوں؟

          اسلام میں صالحین کے لیے سیاسی قوت کے حصول کو ضروری اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ معاشرے میں سیاسی قوت ہی بالا دست ہوتی ہے۔ تمام تر شعبے اور محکمے اسی کے ماتحت ہوتے ہیں، آرمی ہو یا پولیس، میڈیا ہو یاتعلیم صنعت ہو یا زراعت، تجارت ہو یا عدالت، امور خارجہ ہوں یا امور داخلہ، بری بحری ہوائی وسائل نقل وحمل ہوں یا گیس پٹرولیم سونے جیسی معدنیات، خزانے کے من جملہ امور ہوں یا ایٹمی ٹیکنالوجی ، انہار کا محکمہ ہو یا جیل خانہ جات کا صحت کا محکمہ ہو یا بلدیات کا، وغیرہ وغیرہ، یہ سب کے سب سیاست و حکومت کے زیراثر ہوتے ہیں۔ اگر اسلام ان سب امور سے لاتعلق ہوجائے تو اس کے دامن میں سوائے چند رسوم وعبادات اور مواعظ حسنہ کے کچھ باقی نہیں رہ جاتا۔

          یادرہے کہ سیاسی قوت جس کے پاس ہوتی ہے ملکی خزانہ، قانون سازی، عدالت، میڈیا، تعلیم، جنگ وصلح، زراعت، معیشت، تجارت، تمام تر سرکاری محکمےاور عوامی شعبےبین الاقوامی روابط، غرض سب کچھ اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔

          سیاسی نظام کے بغیر اسلام ناقص اور ادھورا ہے، جب تک معاشرے میں اسلامی نظام سیاست نافذ نہیں ہو جاتا تب تک اسلام کے بے شمار بنیادی احکام معطل رہتے ہیں۔ صرف نماز روزہ کی حد تک جو اسلام ہے اسے امامت صغریٰ کہتے ہیں جبکہ حکومت و سیاست سے تعلق رکھنے والے اسلام کو امامت کبریٰ کہتے ہیں۔ اسی لیے اسلام عبادالرحمٰن کے لیے حکومت کے حصول کو لازمی قرار دیتا ہے تا کہ جملہ معاملات کو الله تعالی کی مرضی کے مطابق چلا کر اس کی مخلوق کے لیے زندگی کو آسان بنایا جا سکے۔

          الله تعالی نے قرآن حکیم میں چوری کی سزا کے لیے ”فَاقْطَعُوْا أَيْدِيَهُمَا“ حکم ارشاد فرمایا ہے، جہاد کے لیے ”قَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ “کا حکم ارشاد فرمایا ہے، تہمت کی سزا کے لیے” فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمَانِیْنَ جَلْدَ ۃً “ کا حکم ارشاد فرمایا ہے، بدکاری کی سزا کے لیے” فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةً “کاحکم ارشاد فرمایا ہے،قتل کی سزا کے لیے ”کُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ“ کاحکم ارشاد فرمایا ہے۔گستاخیِ رسالت کی سزا کے لیے ”اَیْنَمَا ثُقِفُوْا أُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِيْلاً، کاحکم ارشادفرمایا ہے ، احکام اسلامی کے نفاذ کے لیے ”وَأَنِ حْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَااَنْزَاللّٰہُ “  کاحکم ارشادفرمایا ہے، عدل اجتمائی کے قیام کے لیے” کُوْنُوْا قُوَّامِيْنَ بِالْقِسْطِ “کاحکم ارشاد فرمایا ہے، عالمی سیاسی وحدت کے لیے ”وَاعْتَصِمُوْابِحَبْلِِ اللهِ جَمِيْعًا وَلَا تَفَرَّقُوْا“ کاحکم ارشادفرمایا ہے، فساد کے قلع قمع کے لیے ” اَن یُّقَتَّلُوْ ا أَوْ يُصَلَّبُوْا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَو ْيُنْفَوْا مِنْ الْأَرْضِ“ کا حکم ارشاد فرمایاہے، قانونی انصاف کی فراہمی کے لیے ”وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ “ کا حکم ارشاد فرمایا ہے، نظام حکومت کے لیے ”وَاَمْرُهُمْ شُؤْرئٰ بَيْنَهُمْ  “ کا حکم ارشاد فرمایا ہے، نظام صلوة وز کوة کے قیام کے لیے” وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ آتُوا الزَّكوٰةَ“  کاحکم ارشادفرمایا ہے مگر آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ یہ سب احکام معاشرے میں معطل ہیں، ان کی تنفیذ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک عبادالرحمن بر سر اقتدارنہیں آجاتے،اسی لیے اسلام سیاسی قوت کے حصول کو ضروری قرار دیتا ہے۔

 

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے