سوال: کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلےکے بارے میں کہ عام طور پر ہوٹلوں کے باہر کئی لوگ پھٹے پرانے کپڑوں میں بیٹھے نظر آتےہیں ، لوگ ان اَفراد کو کھانا بھی کھلاتے ہیں ۔ کیا ہم ان لوگوں کی مدد کے لیے زکوٰۃ دے سکتے ہیں؟ زکوٰۃ دینے سے پہلے ہمیں ان سے پوچھ گچھ کرنا ضروری ہے ؟ ہمیں کیسے معلوم ہو کہ یہ مستحق زکوٰۃ ہے یا نہیں؟ اگر بعد میں معلوم ہو کہ یہ مستحق زکوٰۃ نہیں تھا، تو ہماری زکوٰۃ ادا ہو جائے گی؟
جواب: زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے شریعت مطہرہ نے کبھی بھی تفتیش و کریدنے کا حکم نہیں دیا بلکہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے اتنا کافی ہے کہ جسے زکوٰۃ دے رہے ہیں، اس کے مستحقِ زکوٰۃ ہونے کا ظن غالب ہو۔ظن غالب کا حصول مختلف طریقے سے ہوسکتا ہے،جس میں اس شخص کی ظاہری حالت،اس شخص کا فقیروں کی صف میں بیٹھنا ،یا زکوٰۃ مانگنا وغیرہ کوئی بھی طریقہ ہو سکتا ہے، بس یہ ضروری ہے کہ زکوٰۃ دیتے وقت مستحق زکوٰۃ ہونے کا گمان غالب ہو۔کسی کو مستحق زکوٰۃ سمجھ کر زکوٰۃ دے دی ، بعد میں معلوم ہو گیا کہ یہ شخص مستحق زکوٰۃ نہیں تھا ،تو عمومی صورت حال میں زکوٰۃ ادا ہو گئی ، اب دوبارہ زکوٰۃ ادا کرنے کی حاجت نہیں۔ لہذا اگر کوئی شخص پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس فقیروں کی صف میں بیٹھا ہے ،تو اس کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے کہ یہ بھی تحری اور غالب گمان کی ایک صورت ہے ۔ بعد میں اس کے مالدار ہونے کا علم ہو ا،تو بھی زکوٰۃ ادا ہو چکی ، اب دوبارہ ادا کرنا لازم نہیں ہوگا ۔
غالب گمان کے مطابق مستحقِ زکوٰۃ کوزکوۃدینا جائز ہے،چنانچہ تبیین الحقائق میں ہے:’’ إذا تحرى وغلب على ظنه أنه مصرف فهو جائز أصاب أو أخطأ ‘‘ترجمہ: تحری کر کے ظن غالب ہوا کہ مصرفِ زکوٰۃ ہے، تو یہ زکوٰۃ ادا ہو گئی، خواہ مصرفِ زکوٰۃ کو دی یا غیر مصرف کو ۔(تبیین الحقائق ، کتاب الزکوٰۃ ، باب المصرف ، ج1، ص304، ملتان)
فقراء کی صف میں بیٹھنا یا فقراء کی سی کیفیت ہونا تحری کے حکم میں ہے،چنانچہ ردالمحتار میں ہے:’’واعلم ان المدفوع الیہ لو کان جالسا فی صف الفقراء یصنع صنعھم او کان علیہ زیھم او سالہ فاعطاہ کانت ھذہ الاسباب بمنزلۃ التحری وکذا فی المبسوط حتی لو ظھر غناہ لم یعد۔۔۔لانہ اتی بما فی وسعہ ای اتی بالتملیک الذی ھو الرکن علی قدر وسعہ‘‘ ترجمہ: جان لو کہ جسے زکوٰۃ دی وہ فقراء کی صف میں بیٹھا ،انہی جیسا کام کرتا ہو یا فقراء کی سی صورت میں ہو یا اُس نے خود مانگا اور اِس نے زکوٰۃ دے دی ،تو یہ اسباب تحری کے درجے میں ہیں، جیسا کہ مبسوط میں ہے۔ یہاں تک کہ اگر ان کی مالداری ظاہر ہو ،تو زکوٰۃ دوبارہ ادا نہیں کرے گا ،کیونکہ زکوٰۃ کی ادائیگی کا رکن یعنی تملیک پر بقدر قدرت عمل کر چکا۔(ردالمحتار مع الدرالمختار ، کتاب الزکاۃ ، باب المصارف ، ج3، ص353، مطبوعہ کوئٹہ)
غالب گمان کر کے زکوٰۃ دینے سے متعلق بہار شریعت میں ہے:’’ جس نے تحری کی یعنی سوچا اور دل میں یہ بات جمی کہ اس کو زکاۃ دے سکتے ہیں اورزکاۃ دے دی ،بعد میں ظاہر ہوا کہ وہ مصرف زکاۃ ہے یا کچھ حال نہ کُھلا، تو ادا ہوگئی اور اگر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ غنی تھا یا اُس کے والدین میں کوئی تھا یا اپنی اولاد تھی یا شوہر تھا یا زوجہ تھی یا ہاشمی یا ہاشمی کا غلام تھا یا ذمّی تھا، جب بھی ادا ہوگئی ۔۔۔ اور یہ بھی تحری ہی کے حکم میں ہے کہ اُس نے سوال کیا، اس نے اُسے غنی نہ جان کر دے دیا، یا وہ فقیروں کی جماعت میں انہیں کی وضع میں تھا، اُسے دے دیا۔‘‘(بھار شریعت ، ج1، ص932، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
مستحقِ زکوٰۃ ہونے میں غالب گمان معتبر ہونے سے متعلق صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا :”مسائل احکام زکوٰۃ سے یہ تو معلوم ہوا کہ صاحب نصاب کو زکوٰۃ دینا ہے، لیکن زکوٰۃ دینے والے کو بعض اوقات یا اکثر وقت دھوکا ہوتا ہے کہ معلوم نہیں زکوٰۃ لینے والا مالک نصاب ہے یا نہیں ؟ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ غریب ہے ، مالک نصاب نہیں اور اپنی غربت اور لاچاری و محتاجی بیان کر کے زکوٰۃ لیتا ہے اور لوگ دیا کرتے ہیں ۔ بعد موت کے یا زندگی ہی میں بعض شخصوں کو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ شخص مالک نصاب ہے یا تھا ۔ مرنے کے بعد ان کے پاس سے روپیہ زیادہ نکلتا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اپنے اقربا کے بارے میں کس طرح معلوم کیا جائے کہ یہ مالک نصاب ہے یا نہیں؟ ‘‘
تو آپ علیہ الرحمۃ نے جواب ارشاد فرمایا:’’اگر اس کو یہ سمجھ کر کہ یہ مالک نصاب نہیں ہے ، زکوۃ دیدی اور بعد کو معلوم ہوا کہ مالک نصاب ہے ،زکوٰۃ ادا ہو گئی ۔۔۔ اس کے جاننے کا طریقہ یہ ہے کہ جس کو دینا ہے اس کے متعلق اگر غالب گمان ہے کہ فقیر ہے، دیدے ورنہ نہ دے۔“(فتاوی امجدیہ ، ج1، ص374، مکتبہ رضویہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم