پاکستان کے ایک بہت بڑے نام ذاتی تعلقات کی بناء پر ایک مذہبی شخص کی تعریف کرتے ہوئے انسان دوست کہا اس کے ارد گرد جو باشعور ، تعلیم یافتہ ، روشن خیال طبقے کے افراد تھے ان میں سے دو سے تین افراد نے کہا کہ *کٹر مذہبی شخص انسان دوست کیسے ہو سکتا ہے ؟ آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے* ۔
اس شخص نے کوئی بھی جواب دیا ہو لیکن ایسے افراد کی ذہنیت اور سوچ کا اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ جو مذہبی ہوگا وہ انسانیت کا دوست اور خیر خواہ نہیں ہوسکتا یہ طبقہ بزعم خویش خود کو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باشعور سمجھتا ہے ، لیکن دین سے نِرا جاھل ، مذہبی تعلیمات سے کوسوں دور ہے میں یہاں زیادہ نہیں فقط دو اقتباسات پیش کرونگا کہ رات کے اندھیرے میں اک ستارہ بھی ہدایت کیلیے کافی ہوتا ہے ۔
ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں گشت کے دوران میں ایک دروازے پر ایک ضعیف العمر نابینا گداگر کو دیکھا آپ رضی اللّٰہ عنہ نے اس کی پشت پر ہاتھ رکھ کر پوچھا کہ تم اہل کتاب کے کس گروہ سے تعلق رکھتے ہو ، اس نے جواب دیا کہ میں یہودی ہوں۔
حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے دریافت کیا کہ گداگری کی یہ نوبت کیسے آئی۔ یہودی نے کہا۔ ادائے جزیہ، شکم پروری ، بڑھاپے اور مسلسل مصائب کی وجہ سے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ نے یہ سن کر اس کا ہاتھ پکڑ کر گھر لائے اور جو موجود تھا، اس کو دیا اور بیت المال کے خازن کو لکھا:
’’ *یہ اور اس قسم کے دوسرے حاجت مندوں کی تفتیش کرو۔ خدا کی قسم ہرگز یہ ہمارا انصاف نہیں ہے کہ ہم جوانی میں ان سے جزیہ وصول کریں اور بڑھاپے میں انھیں بھیک کی ذلت کے لیے چھوڑ دیں ،* بیت المال کے صدقات کے مستحق جس طرح مسلمان فقراء ہیں اسی طرح غیر مسلم مساکین بھی مستحق ہیں ۔ اس کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ نے ایسے تمام لوگوں سے جزیہ معاف کرکے بیت المال سے وظیفہ بھی مقرر کردیا۔‘
آج کے کسی مولوی اور داڑھی والے کے ذاتی فعل کو بنیاد بنا کر مذہب پر تنقید کرنے والے اگر اسلام کے حقیقی پیغام اور روحِ اسلام کو سمجھیں تو ان کی زبانیں گونگیں اور آنکھیں اندھی ہوجائیں لیکن اسلام میں سوائے خیر خواہی اور بھلائی کے کچھ نا پائیں ۔ مسلم شریف کی روایت میں ہے
*الدین النصحیہ یعنی دین سارا کا سارا خیرخواہی ہے* ،
گوی دین کی تشریح ہی خیر خواہی کے لفظ سے کی کہ یہ اللہ و رسول مسلمانوں اور پوری انسانیت کے لئے بھلائی و خیرخواہی ہے‘ اس کا اولین تقاضا انسانیت کے درمیان ہر قسم کی غلط فہمیوں کو ختم کرکے مساوات و اتحاد کو قائم کیا جائے
اسلامی ریاست میں صرف مسلمانوں ہی کے نہیں بلکہ تمام غیرمسلم اقلیتوں اور رعایا کو عقیدہ، مذہب، جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت حاصل ہوتی ہے ۔ وہ انسانی بنیاد پر شہری آزادی اور بنیادی حقوق میں مسلمانوں کے برابر شریک ہوتے ہیں ۔ قانون کی نظر میں سب کے ساتھ یکساں معاملہ کیا جائے گا، بحیثیت انسان کسی کے ساتھ کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔ جزیہ قبول کرنے کے بعد ان پر وہی واجبات اور ذمہ داریاں عائد ہونگی، جو مسلمانوں پر عائد ہیں، انھیں وہی حقوق حاصل ہونگے جو مسلمانوں کو حاصل ہیں اور ان تمام مراعات و سہولیات کے مستحق ہونگے، جن کے مسلمان ہیں۔ فقہ کی مشہور کتاب میں ہے
’’فإن قبلوا الذمۃ فأعْلِمْہم أن لہم ما للمسلمین وعلیہم ما علی المسلمین‘‘ (بدائع الصنائع، ج:۶، ص: ۶۲)
یعنی *اگر وہ ( غیر مسلم ) ذمہ قبول کرلیں، تو انھیں بتادو کہ جو حقوق و مراعات مسلمانوں کو حاصل ہیں،* *وہی ان کو بھی حاصل ہونگی اور جو ذمہ داریاں مسلمانوں پر عائد ہیں وہی ان پر بھی عائد ہونگی۔*
اسلام نے گویا غیر جانبدار ہو کر فقط انسانی تہذیب و تمدن کی تعلیمات عام کی ہیں لیکن وقتاً فوقتاً بار بار دیکھنے سننے کو ملتا ہے کہ مذہب اور انسانیت جدا جدا موضوعات ہیں ، میں سمجھتا ہوں یہ کہنا جہالت کے سوا کچھ نہیں ۔
✍️ *ابو عمر غلام مجتبیٰ مدنی*