قیادت کی تعریف:
کسی شخص کا اپنی صلاحیتوں کو اس طرح بروئے کار لانا کہ جس طرح وہ سوچے اور یوں کرے باقی لوگ بھی اسی طرح سوچیں اور محسوس کریں اور اس کےساتھ مل کر کام کریں۔
اسلامی نقطہ نظر کے مطابق "قیادت” الله تعالی اور اس کے رسول ﷺکے عطافرموده جامع نظام حیات کے لوگوں تک ابلاغ اور اس کو معاشرے میں ہرسطح بالخصوص سیاسی سطح پر بروئے کار لانے کی جدوجہد کو کہتے ہیں۔ واضح رہے کہ اسلامی نظام سیاست کا نفاذ” صالح قیادت” کے بغیر ممکن نہیں۔ پس مسلمانوں میں ایک مرتبہ پھر قیادت کے ادارے کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ سرکار دو عالم خود بھی عظیم قائد تھے اور آپ نے خلفاء راشدین جیسے عظیم قائد تیاربھی فرمائے۔
اسلامی تصور قیادت پانچ بنیادوں پر اٹھان لیتا ہے:(1) امیر (۲) جماعت (۳) شوریٰ (۴) سمع وطاعت (۵) جہاد۔
اگران پانچ اصولوں میں سے کسی ایک کی بھی نفی ہو جائے تو اس سے مکمل قیادت کی نفی ہو جاتی ہے۔ ان پانچ کی مختصر وضاحت حسب ذیل ہے۔
(1) امیر کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان تمام خوبیوں سے بہرہ ور ہوجن کا اسلام تقاضا کرتا ہے۔ ضروری ہے کہ وہ علم، عمل، صلاح، تقویٰ، شجاعت، ذہانت او نظم وضبط جیسی خوبیوں سے بہرہ ور ہو۔
(۲) امیر کے زیر قیادت ایک فکری منہج رکھنے والے تمام لوگوں کا اوپر سے نیچے تک مضبوط اور مربوط جماعتی نظام ہو۔ تمام تر افرادمکمل طور پر ایک بہترین نظم کے ساتھ مرکز سے وابستہ ہوں۔
(۳) جماعت کو شورائی نظام کے تحت چلایا جائے، الله تعالی نے قرآن حکیم میں معاملات کو مشورے کے ساتھ چلانے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ لہذا شوریٰ کے بغیر جماعت کو چلا نا نا جائز اور حرام ہے۔
(۴) امیر کی سمع وطاعت میں اس کی بات مکمل توجہ سے سننا اور پوری پوری اطاعت کرنا بھی ضروریات شرعیہ میں سے ہے۔ جماعت کے کسی بھی فرد کےلیے اس سے انحراف کسی بھی صورت جائز نہیں، نہ مشکل میں نہ آسانی میں۔
(۵) جہادیعنی الله تعالی کے دیے ہوئے کامل نظام حیات کے غلے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں اور وقت و مال خرچ کرنا ۔حتی کہ اگر اس راہ میں جان بھی چلی جائے تو اس کو اپنے لیے اعزاز سمجھنا۔
ان پانچ اصولوں پرعمل درآمد کویقینی بنانے کے لیے اسلام نے بیعتِ امیر کا مسنون طریقہ ارشادفرمایا ہے۔ یہ امیر کے ساتھ مکمل وفاداری کا ایک عزم مصمم ہوتا ہے۔ اس سے جماعت کوجتنی تقویت ملتی ہے اتنی کسی دوسری صورت سے ممکن نہیں۔
قائد کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہمہ جہت صلاحیتوں کا مالک ہو اور لوگوں کی اس طرح راہنمائی کرے کہ یا تو انہیں منزل تک پہنچادے یا کم از کم منزل کی راہ پر گامزن کر دے۔
قائد اور کارکنوں میں فرق یہ ہے کہ کارکن صرف کام کرنا جانتا ہے اور قائد کام کرنے کے ساتھ ساتھ کام کروانا جانتا ہے۔ ہر اچھا قائد ایک اچھا کارکن بھی ہوتا ہے مگر ہر اچھا کارکن ضروری نہیں کہ اچھا قائد بھی ہو۔
کام اچھے طریقے سے سرانجام دینا بہت بڑی خوبی ہے مگر کام کو اچھے طریقے سے کروانا اس سے بھی بڑی خوبی ہے۔ کارکن تو ہر دوسرا بندہ بن سکتا ہےمگر قائد ہر دوسرا بند نہیں بن سکتا۔ یہ خوبی بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے اور جن میں ہوتی ہے ان پرالله تعالی کا خاص کرم ہوتا ہے۔
قائد کے اوصاف:
ایک قائد میں درج ذیل اوصاف ہونے چاہیئے:
مضبوط قوت ارادی کا مالک ہو۔ متوازن اور منضبط شخصیت کا مالک ہو۔ نرم مزاج ہو۔ اصول پسند ہو۔ انصاف پسند ہو۔ با اعتماد ہو۔ خود اعتمادی کا حامل ہو۔ حالات حاضرہ سے باخبر ہو۔ معاشرہ کانبض شناس ہو۔ اپنی خامیاں دور کرنے والا اور خوبیاں بڑھانے والا ہو تعمیری عادتوں میں اضافہ اورتخریبی عادتوں کا خاتمہ کرنے والا ہو۔ علم فن، مطالعہ، مشاہدہ اور تجربہ میں کامل ہو۔ بہترین قوت فیصلہ کا حامل ہو۔ پر یقین ہو، ہمت وحوصلے والا ہو۔ ایسی فراست کا حامل ہو کہ حالات و واقعات کو دیکھتے ہی اصل معاملہ کو بھانپ لے۔ دوراندیش ہو۔ تجز یہ کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اعلی اخلاق و کردار کا مالک ہو۔ تمام خلاف شریعت امور سے بچنے والا ہو۔ دیانت دار ہو۔ میانہ روی اختیار کرتا ہو۔ سچا اور کھرا انسان ہو،حق گو ہو، بہادر ہو، اچھی قوت حافظ کامالک ہو، زمہ داری کا احساس کرنے والا ہو ،عظیم قوت برداشت کا مالک ہو۔،قرآن و حدیث اور فقہ سیرت کا وسیع علم رکھتا ہو، نظریہ پر ثابت قدم رہنے والا ہو۔ حسن اخلاق کا مالک ہو، نگہ بلند سخن دلنواز، جاں پرسوز، یقین محکم، عمل پیہم اورمحبت فاتحِ عالم کی خوبیوں سے مزین ہو۔ قوانین فطرت سے آگاہ ہو۔ پالیسی سازی کی صلاحیت رکھتا ہو۔ لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا کرنے کا فن جانتا ہوں۔ لوگوں کو متاثر کرنے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کا ہنر جانتا ہو،لو گوں تخلیقی صلاحیتوں کا مالک ہو۔ روایتی کام کو آگے بڑھانے کی بجائے نت نئی ترکیبیں سوچ کر کام کو آگے بڑھا سکتا ہو۔ اپنے دوستوں کو اعتماد میں لے کر کام کرتا ہو۔ اپنے ساتھیوں میں کام کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہوں۔ ان کے کارناموں کی حوصلہ افزائی کرتا اور ان کی شخصیت کو اجاگر کرتا ہو۔ تنہا پرواز کی بجائے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر کام کرتا ہو’’ میں‘‘ کی بجائے’ہم‘‘ کا لفظ استعمال کرتا ہو۔ اپنے ساتھیوں کو ذلیل نہ کرتا ہو۔ نا قابل تردید مضبوط دلائل کے ساتھ بات کرتا ہو۔ حالات کیسے ناخوشگوار کیوں نہ ہوں کسی بھی صورت میں ہمت و حوصلہ نہ ہارتا ہو مشکل ترین موقع پر بھی اپنی ٹیم کو مسائل کے گرداب سے نکال کر باہر لاتا ہو، مواقع سے بروقت فائدہ اٹھانا جانتا ہو یعنی چانسز اویل کرتا ہو۔ اس کی گفتگو معیاری اور لباس عمدہ ہو۔ نا پسندیدہ باتوں اور عادتوں سے پرہیز کرتا ہوں۔ دوسروں کی عزت نفس کاخیال رکھتا ہو لوگوں کے نام یاد رکھتا ہو اور انہیں اچھے القاب سے یادکرتا ہو۔ جوش وجذبہ کے ساتھ تمام امور کو متوازن طریقہ سے سرانجام دیتا ہو۔ جدوجہد کو استقامت کے ساتھ جاری رکھتا ہو۔ ناکامی اور شکست سے بددل نہ ہوتا ہو۔ ہر وقت رائے بدلنے والا نہ ہو۔ خطرات کی پرواہ نہ کرنے والا ہو۔ وفادار اور مخلص لوگوں کی قدر کرتا ہو اور انہیں دھتکارنے سے قطعی اجتناب کرتا ہوں۔ تجزیاتی ذہن کا حامل ہو۔ ایسے کام کرے جن کی اہمیت کو معاشرہ میں محسوس کیا جائے۔
نیز قائد کے لیے ضروری ہے کہ وہ متعصب نہ ہو۔ جانب دار نہ ہو، تخریبی ذہن کا مالک نہ ہو۔ شکوک وشبہات اور توہمات کا شکار نہ ہو۔ غیرضروری تفکرات میں مبتلا نہ ہو۔ بداخلاق نہ ہو۔ بزدل نہ ہو۔ خودغرض اور بدمزاج نہ ہو۔ بہت زیادہ حساس نہ ہو۔ بددلی اور تھکاوٹ کا شکار نہ ہو۔ غصہ، حسد، خود پسندی، تکبر ،بغض اور کنجوسی کا شکار نہ ہو۔ کمزوری، نفرت اور لہو ولعب میں مبتلا نہ ہو۔ بسیار خور اور عیش و آرام کا دلدادہ نہ ہواور جلد باز نہ ہو۔
قیادت کا عملی طریقہ کار
قائد جب بھی کسی کام کو لے کر آگے بڑھتا ہے تو اس کے لیے درج ذیل طریقہ کار اختیار کرنا ضروری ہوتا ہے۔
(1) مقصد کا تعین:
سب سے پہلے مقصد کاتعین ہے تا کہ ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں مارنے کی بجائے ہر قدم اسی کی طرف اٹھے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ جو راستہ اختیارکیا جائے وہ منزل ہی کی طرف جاتا ہو۔
(2) مخلص ماہرین کا وجود:
جس مقصد کوحاصل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی جارہی ہے اگر ہونا اہل اور غیرماہر قسم کےلوگوں کا مرہون منت ہے تواس میں کامیابی کے مواقع مفقود ہیں۔ لہذا مخلص ماہرین کی فراہمی قیادت کے لیے ایک لازمی امر ہے۔
(3) مشاورت:
ماہرین بھی اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک ان میں مضبوط مشاورت کا نظام قائم نہ ہو۔ لہذاوہ جو بھی قدم اٹھائیں وہ بغیر مشورے کے نہیں ہونا چاہیے ورنہ قدم قدم پر خسارہ ہوگا۔
(4) ٹھوسں منصوبہ بندی:
مشاورت کے دوران جولائحہ عمل تیار ہوتا ہے اسے منصوبہ بندی کا نام دیا جاتا ہے۔ جب تک ٹھوس منصوبہ بندی نہ کر لی جائے تب تک مقصد کی طرف سفر مفید نہیں بلکہ مضر ہوتا ہے۔
(5) پیغام رسانی:
منصوبہ بندی کے بعد پیغام رسانی کا مرحلہ آتا ہے۔ یعنی جو کچھ قیادت کرنے جارہی ہے جماعت کے ہر ہر فرد تک اس کا پیغام بروقت اورحسن وخوبی کے ساتھ پہنچ جائے تا کہ اجتماعی قوت قیادت کے ساتھ چلنے کے لیے ہیں اور ملی طور پرتیار ہو۔
(6) عملی اقدامات:
پیغام رسانی کے بعد مرکز کے منصوبوں کوعملی جامہ پہنایا جاتا ہے۔ یہ عملی اقدامات ہی دراصل جماعت کا سفر ہوتے ہیں، ان میں افرادِ جماعت کی کارکردگی کا بہتر سے بہتر ہونا بے حد ضروری ہے۔
(7) تربیت:
جماعت کے وابستگان کی ہر ہر قدم پر تربیت کرنا بھی قیادت کی ذمہ داری ہے، غیر تربیت یافتہ افراد جماعت کے لیے زہر قاتل ثابت ہوتے ہیں۔ انہیں ساتھ لے کے چلنا سخت نقصان دہ ہوتا ہے۔
(8) پڑتال کرنا:
جماعت کے جملہ معاملات کی ہرلحظہ پڑتال بھی ایک لازمی امر ہے۔ جس میں دیکھا جاتا ہے کہ منزل کی طرف سفر کے دوران کس حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے اور کہاں کہاں کمزوری رہ گئی ہے، اس سے سفرکوتیز تر اور منزل کو قریب تر کرنے کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔
صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم ہرلحظہ جو کرتی ہے اپنے عمل کا حساب
(9) حصول مقصد:
اگر قیادت کو اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل ہونا شروع ہوجاتے ہیں تو یہ اس کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس سے افراد جماعت کو اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے اور قیادت پر ان کا اعتماد بڑھ جاتا ہے لہذا کامیابیوں کو برقرار رکھنا اور ہاتھ سے جانے نہ دینابھی ایک ضروری امر ہے۔