فیکٹری میں بہت زیادہ شور والی جگہ پر نماز پڑھنا کیسا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ میں لوم فیکٹری میں کام کرتا ہوں۔ نماز کے وقت وہیں سائیڈ پر ایک جگہ ہے، جہاں ملازم نماز پڑھ لیتے ہیں، مگر وہاں بہت زیادہ شور ہوتا ہے۔ کیا ایسی جگہ نماز پڑھنا درست ہے؟

جواب:    نماز بارگاہِ رب ذو الجلال میں حاضری کا وقت ہے اور شریعت کو اِس میں مکمل خشوع وخضوع مطلوب ہے۔ایسی  نماز کو ہی قرآن حکیم میں اصحابِ فلاح یعنی کامیاب لوگوں کی نماز قرار دیا گیا۔ ارشاد ہوا﴿ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ (1) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ﴾ترجمہ:بیشک ایمان والے کامیاب ہوگئے۔ جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں ۔(المؤمنون:01.02)نماز کے دوران پریشان ذہنی،  عدم توجہی  اور جلد بازی ہرگز بارگاہِ الہی کے شایاں نہیں، بلکہ حُضُورِ ذہنی، کامل توجہ اور اِعْتِدال واِطْمِینان نماز کا حسن اور شریعت کو مطلوب ہے۔ اگر ہم فلسفہ ِعبادات سمجھیں تو ہمیں ہر عبادت کو ”علیٰ منہجِ الاِحسان“ بجا لانے کا حکم ارشاد فرمایا گیا، جیسا کہ حدیث جبریل اِس پر شاہد ہے۔  اِسی ”عملِ احسن“ کے امتحان کے لیے موت وحیات کو پیدا کیا گیا،چنانچہ فرمایاگیا﴿ اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾ترجمہ:وہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون زیادہ اچھے عمل کرنے والا ہے۔(الملک:02)

   دیگر عبادات اور بالخصوص نماز کی ایسی عظمت وشان کے سبب فقہائے اسلام نے اس کے آداب کو باقاعدہ اہتمام سے بیان فرمایا، چنانچہ کتبِ فقہ میں باقاعدہ ایسے مقامات اور جگہوں کو بیان کیا گیا کہ جہاں مختلف وجوہات اور بالخصوص خشوع وخضوع میں خلل پیدا کرنے والے اُمور  کے سبب نماز پڑھنے کو شرعاً ناپسندیدہ قرار دیا گیا۔ اُن مقامات میں ایک وہ جگہ بھی ہے کہ جہاں بہت زیادہ شور ہو یا قریب لوگ اونچی آواز میں گفتگو کر رہے ہوں اور اُس شور اور کلام کے سبب نمازی کی توجہ بَٹے اور پریشان ذہنی پیدا ہو، تو وہاں نماز پڑھنے کو مکروہ اور ناپسندیدہ قرار دیا گیا، لہذا صورتِ مسئولہ میں  اَوَّلاً یاد رکھیے کہ مرد پر مسجد میں باجماعت نماز پڑھنا واجب ہے اوربلاعذرِ شرعی جماعت ترک کرنا، ناجائز وگناہ ہے اور اگر شرعی اعتبار سے جماعت واجب نہ ہو ،تو  پھر آپ ایسی جگہ نماز نہ  پڑھیں کہ جہاں ایسا شدید شور ہو، بلکہ اگر فیکٹری میں ہی کوئی پُرسکون جگہ میسر ہو یا  باہر   ایسی جگہ مل جائے کہ جہاں ایسا  شور  نہ ہو، تو وہاں نماز پڑھی جائے۔

   جب حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام نے ”احسان“ کی مراد کے متعلق استفسار فرمایا، تو  نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےمطلقاً معیارِ عبادت بیان کرتے ہوئے  ارشاد فرمایا:أن تعبد اللہ ‌كأنك ‌تراه، فإن لم تكن تراه فإنه يراك‘‘ترجمہ:(احسان یہ ہے کہ) تم  اللہ تعالیٰ کی عبادت یوں کرو کہ گویا تم خدا کے انوار دیکھ رہے ہو اور اگر یہ کیفیت نہ بن پائے ،تو  یہ یقین رکھو کہ وہ تو بے شک تمہیں دیکھ رہا ہے۔(صحیح البخاری، جلد01،  ‌‌باب سؤالِ جبریل النبیّ، صفحہ 19، مطبوعہ دار طوق النجاہ، بیروت)

   سراج الدین علامہ ابن نجیم مصری حنفی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1005ھ/1596ء) لکھتے ہیں:’’وما عن ابن عباس (نهينا أن نصلي إلى النيام والمتحدثين) فمحمول في الأول على ما إذا خاف ظهور ما يضحكه من النائم أو يخجله إذا انتبه، وفي الثاني ما إذا رفعوا أصواتهم وخشي المصلي أن يزل في القراءة أو ‌شغل ‌البال‘‘ ترجمہ:اور جو حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ ”ہمیں سونے اور گفتگو کرنے والوں  کی طرف رُخ  کر کے نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے“ تو سونے والوں کی جانب رُخ  کرنے سے ممانعت اِس وجہ پر ہے کہ جب سونے والے سے کسی ایسی آواز (مثلاً خراٹے)آنے کا اندیشہ ہو، جو اِسے ہنسا دے یا جب وہ اٹھے تو  اِس نمازی کے سبب شرمندگی اٹھائے اور دوسری صورت میں ممانعت یوں ہے کہ جب گفتگو کرنے والے اپنی آواز بلند کریں  اور نمازی کو خدشہ ہو کہ وہ قراءت بھول جائے گا یا اُس کا دل باتوں میں متوجہ ہو گا۔(نھر الفائق، جلد01، صفحہ 286، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   علامہ علاؤ الدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1088ھ/1677ء) لکھتے ہیں: تکرہ فی اماکن ۔۔۔زاد في الكافي: ومرابط دواب وإصطبل وطاحون‘‘ترجمہ:چند جگہوں پر نماز پڑھنا مکروہ اور ناپسندیدہ ہے۔ ”الکافی“ میں مزید مقامات یہ ہیں: جانوروں کے باڑے، اصطبل اور جہاں چکی لگی ہو، وہاں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ (درمختار مع ردالمحتار ، جلد02، صفحہ557.562، مطبوعہ   دار الثقافۃ والتراث، دمشق)

   اس کے تحت علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1252ھ/1836ء) نے لکھا:’’ لعل وجهه شغل البال بصوتها تأمل‘‘ ترجمہ:چکی کی صورت میں وجہِ کراہت یہ ہے کہ شاید چکی کی آواز سے اس کا دل قراءت سے ہٹ کر اِدھر اُدھر متوجہ ہو۔ اس مسئلہ پر خوب غوروفکر کرو۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد 02، صفحہ 562 ، مطبوعہ   دار الثقافۃ والتراث، دمشق)

   امامِ اہلِ سنَّت ،امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1340ھ/1921ء) نے لکھا:’’ولذا خصوا الكراهة بحال الطحن‘‘ ترجمہ:اِسی لیے فقہائے کرام نے کراہت کو اُسی صورت سے مخصوص رکھا کہ جب چکی چل رہی ہو۔(جد الممتار، جلد03، صفحہ42، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے