بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ ایک طرف یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ اسلام میں بڑی نرمی، آسانی اور وسعت ہے جس کی وجہ سے اسلام ہر طرح کے کلچر کو اپنے دامن میں سمو لیتا ہے البتہ ان میں رائج غلط چیزوں کے متعلق رہنمائی کردیتا ہے لیکن دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ کھانے پینے، پہننے، سونے جاگنے کے متعلق بیسیوں احکام و روایات موجود ہیں کہ ایسے کرو اور ویسے نہ کرو نیز مذہبی ماحول سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی عمومی مستحبات پر بہت زور دیتے دیکھا گیا ہے۔ اگر یہ سختی نہیں ہے تو کیا ہے کہ ساری قوم کو ایک ہی طرزِ زندگی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ وہ نرمی، آسانی اور وسعت کہاں ہے جس کا دعوی کیا جاتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں عرض یہ ہے کہ مستحبات میں دو طرح کے اعمال وافعال ہیں: ایک وہ جن کا تعلق معمولات ِ زندگی جیسے لباس، کھانے پینے، چلنے پھرنےوغیرہ سے ہے،جبکہ دوسرے وہ اعمال ہیں جن کا تعلق عبادات یعنی نماز، روزے، حج وغیرہا سے ہے، دونوں طرح کے امور میں مستحبات پر زور دئیے جانے کے اسباب مختلف ہیں۔اس مضمون میں پہلی قسم پر کلام کیا جائے گا۔ پہلی قسم کلچریا ثقافت سے تعلق رکھتی ہے اورجہاں تک ثقافت کا تعلق ہے تو ہماری مذہبی ثقافت میں بہت سی چیزوں کا تعلق عرب سے ہے کیونکہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عرب میں تشریف لائے اور وہیں کی جائز ثقافتی چیزوں کو اختیار فرمایا تو اب اگرچہ سب مسلمان عربی نہیں ہیں بلکہ عربی عجمی، ایشیائی، افریقی، یورپی سبھی طرح کے مسلمان ہیں لیکن اس کے باوجود وہ عربی ثقافت کی بہت سی چیزیں اپنانا پسند کرتے ہیں۔ ان کی تفصیل و توجیہ یہ ہے کہ معمولاتِ زندگی میں کچھ وہ ہیں جنہیں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک اسلامی طریقے کے طور پر تعلیم فرمایا جیسے بیٹھ کر، دائیں ہاتھ سے، بسم اللہ پڑھ کر، دیکھ کر، تین سانس میں پانی پینا اور پینے کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا، پانی پینے کا اسلامی طریقہ ہے۔ اب غور کریں تو پتہ چلے گا کہ ان میں بسم اللہ اور الحمدللہ تو ذکرِ الٰہی اور شکرِ الٰہی کےلئے ہیں جبکہ دائیں ہاتھ سے پینا بھی دینی مقصد رکھتا ہے کہ معزز و ذی شان کاموں میں دائیں پہلو کو دین نے اہمیت دی ہے اگرچہ اس طریقے سے پینے پر کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ بیٹھ کر، دیکھ کر اور تین سانس میں پینا ہمیں ایک سہولت والا طریقہ سکھانے کے لئے ہے۔ جب کوئی اس طریقے سے پانی پیتا ہوا نظر آتا ہے تو ہرآدمی سمجھ لیتا ہے کہ یہ بندہ مسلمان ہے اور اسلام پر عمل کرنے میں اسے فخر ہے اور زبان سے ’’رَضِیْتُ بِاللہِ رَبًّا وَبِالْاِسْلَامِ دِیْنًاوَبِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا، میں اللہ کے رب ہونے اور اسلام کے دین ہونے اور محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نبی ہونے پر راضی ہوں‘‘ کے ساتھ عمل سے بھی اس کا اظہار کررہا ہے۔ پانی پینے کے اسی انداز پر آپ کھانے، پہننے، چلنے، سونے وغیرہ کو قیاس کرلیں۔ خلاصۂ کلام یہ کہ معمولات ِ زندگی کے بیسیوں امور میں تو بلاواسطہ رہنمائی موجود ہے جبکہ اس کے ساتھ یہ بات بھی موجود ہے کہ شریعت نے انہیں لازم و ضروری قرار نہیں دیا بلکہ ان میں آسانی رکھی کہ اگر کوئی ترک کرتا ہے تو گناہگار نہیں، ہاں ثواب سے محروم ہوجائے گا۔ دوسری طرف یہ بات بھی یاد رکھیں کہ کھانے پینے پہننے بیٹھنے چلنے وغیرہا کے تمام امور پر پوری ترقی یافتہ دنیا میں لاکھوں کتابیں لکھی گئی ہیں، گھروں اور سکولوں میں بچوں کو سکھایا جاتاہے اور اِس سکھانے کو بڑے فخریہ انداز میں بتایا جاتا ہے کہ ہم اپنے بچوں اور قوم کو Manners یعنی آداب ِ زندگی سکھا رہے ہیں، کھانے میں کون سی پلیٹ کس چیز کےلئے ہے؟ کون سی چمچ کیا کھانے کےلئے ہے؟ مختلف چمچ کیسے پکڑنے ہیں؟ بلکہ میز پر ان چیزوں کو رکھنے کا طریقہ کیا ہے؟پہلے کیا کھانا ہے، درمیان میں کیا اور بعد میں؟ یہ سب چیزیں بڑے ذوق شوق اور محنت سے سکھائی، پڑھائی اور دکھائی جاتی ہیں اور حیرت کی بات ہے کہ ان کے سکھانے بتانے پر کبھی نہیں سنا کہ کسی لبرل نے اعتراض کیا ہو کہ کیا چھوٹی چھوٹی چیزوں پر اتنا زور دیا جارہا ہے اور کیوں یورپ کے طریقے ایشیا میں رائج کئے جارہے ہیں لیکن دین اور دینی انداز و اطوار سے بیزار لبرل لوگوں کو اسلامی طریقوں اور نبوی سنتوں سے نجانے کیا مسئلہ ہے کہ یہاں فوراً اعتراض شروع ہوجاتا ہے کہ کیوں چھوٹی چھوٹی چیزوں پر زور دیا جارہا ہے؟
اور کیوں عربی کلچر کی چیزیں یہاں رائج کی جارہی ہیں؟ اس پر صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
اب یہی بات بطرزِ دِگر عرض کرتا ہوں۔ مٹی کے برتن استعمال کرنے، زمین پر بیٹھ کر کھانے، لمبا سفید لباس پہننے وغیرہ چیزوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ عرب کا کلچر ہے اور ہم عربی نہیں ہیں تو کیوں ان چیزوں پر عمل کا کہا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزوں کے بارے میں ہمیشہ یاد رکھیں کہ ان کا درجہ فرض و واجب نہیں ہیں لہٰذا کوئی ان پر عمل نہیں کرتا تو بالکل گناہگار نہیں ہے اور عمل نہ کرنے والوں کو طعن و تشنیع کرنا مذموم ہے لیکن اِن پر عمل کرنے والوں پر طنز کے تیر برسانا زیادہ قابلِ مذمت ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتوں پر عمل کرنے والوں کو اُن کے عمل کی وجہ سے طنز کا نشانہ بنایا جارہا ہے جو کسی مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔
مذہبی لوگوں کے ان چیزوں کو اپنانے کی بڑی ہی پیاری وجہ ہے اور وہ یہ کہ جب آدمی کسی کو اپنا پسندیدہ (Favorite) فیورٹ قرار دیتا ہے تو اپنے کلچر کی بیسیوں چیزیں چھوڑ کر وہی کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اس کی فیورٹ(Favorite) شخصیت کر رہی ہوتی ہے مثلا کسی پاکستانی کو یورپ یا انڈیا کا کوئی ہیرو یا گلوکاریا کھلاڑی پسند آجائے تو وہ ویسا ہی بالوں کا اسٹائل بنائے گا، اسی جیسا لباس پہنے گا حتی کہ بولنے کے اسٹائل میں بھی کوشش کرے گا کہ اسی طرح بولے، اسی کی طرح ہاتھوں کا اشارہ کرے نیز جو وہ کھاتا پیتا ہے وہی کھانا شروع کر دے گا تو جہاں Favoritism، پسند اور محبت کی بات آتی ہے وہاں آدمی اپنا کلچر پیچھے کر دیتاہے اور اپنی پسندیدہ شخصیت کا کلچر اپنا لیتا ہے۔ اسی طرح آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی فیشن اِن (in) ہوتا ہے تو جس مشہور شخصیت کا وہ فیشن ہوتا ہے اس کے پیروکاروں (Followers and fan club) میں وہ فیشن بہت تیزی سے سرایت کر جاتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جب کوئی بندہ لوگوں کی نظر میں پسندیدہ ہوتا ہے تو اس کے Fans اور Followers وہی چیزیں کرنا شروع کردیتے ہیں جو اس پسندیدہ شخصیت کی معمول ہیں خواہ شخصیت کا تعلق اپنے ملک سے ہو یا یورپ ، امریکہ سے اور Fan کسی دور دراز گمنام علاقے کا رہنے والا ہو۔ بلا تشبیہ عرض ہے کہ ساری دنیا کی اوپر بیان کردہ پسندیدہ ہستیاں ہمارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قدموں کی خاک پر قربان۔ بلاشک و شبہ مسلمانوں کی سب سے محبوب ہستی نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ مبارک ہے اور یہ محبت اہل ِ محبت کے دلوں کو مجبور کردیتی ہے کہ وہ اپنے Favorite، اپنے محبوب اور پسندیدہ ہستی کے کلچر کی چیزیں اختیار کرے چنانچہ یہ حتی الامکان اسی طرح لباس پہننے، اسی طریقے سے کھانے، اسی انداز میں چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے، گفتگو کرنے اور سونے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا طریقہ ہے اور یہ چیز محبت میں بہت عام ہے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے، آپ نے نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کو لوکی شریف کے ٹکڑے تلاش کر کر کے تناول فرماتے دیکھا۔ فرماتے ہیں کہ اس دن سے مجھے لوکی سے محبت ہو گئی۔ (بخاری،ج 3،ص537، حدیث: 5436) آخر لوکی میں ایسی کیا تبدیلی آئی اور طبیعت میں ایسا کیا انقلاب آگیا کہ پہلے لوکی ایک نارمل سبزی تھی لیکن اب اسپیشل ہوکر محبوب ہو گئی۔ وجہ یہ تھی کہ وہ محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے رغبت سے کھائی تھی ۔
حرف ِ آخر یہ کہ معمولات ِ زندگی کی جن چیزوں کا نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےحکم دیا یا ترغیب دی ان پر تو عمل کیا ہی جائے گا اور جن کو صرف اختیار کیا ہے ان میں اہل ِ محبت کا طریقہ حتی الامکان اپنانا ہی ہوتا ہے اگرچہ بہت سے طریقوں میں وہ اپنے علاقے یا زمانے یا ضرورت یا اہم فائدے کے اعتبار سے دوسرا طرزِ عمل بھی اختیار کرتے ہیں جیسے شلوار پہننا، تیزرفتار سواریوں پر سفر کرنا، گندم کھانا وغیرہا اور ان چیزوں پر کوئی اعتراض و کلام نہیں لیکن عمل کرنے والوں کےلئے امر ِ ترغیبی یہ ہے کہ مسلمانوں کی نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ ایک جذباتی محبت جو اصلِ ایمان،جانِ ایمان اور روحِ ایمان ہے اور یہی محبت معمولاتِ زندگی کی سنتوں پر عمل کرنے کی طرف لے آتی ہے، جسے بہت سی جگہ سنت کے لفظ سے تعبیرکیا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہمارے محبوب نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ادائیں ہیں ، اس لئے ہم انہیں اپناتے ہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…دارالافتاء اہل سنت ،عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ ،کراچی