شادیوں میں ولیمہ کی دعوت کا کھانا کھا کر اسلامی بھائی بطورِ نیندرہ کچھ رقم دے کر چلے جاتے ہیں، یہ جائز ہے یا نہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سود بن جاتا ہے

سوال: شادیوں میں ولیمہ کی دعوت کا کھانا کھا کر اسلامی بھائی بطورِ نیندرہ کچھ رقم  دے کر چلے جاتے ہیں، یہ جائز ہے یا نہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سود بن جاتا ہے

جواب:شادی بیاہ کے موقع پہ ملنے والا نیندرہ (نیوتا) وصول کرنا شرعاً جائز ہے اور یہ سود کے زمرے میں نہیں آتا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ شادی اور دیگر مواقع پر جو رقم دی جاتی ہے اس کی دو صورتیں ہیں:(1)جہاں برادری نظام ہے اور وہ اس رقم کو باقاعدہ لکھتے ہیں کہ کس نے کتنا دیا ہے پھر جب دینے والے کے گھر کوئی دعوت ہوتی ہے تو یہ اس سے کچھ زیادہ رقم دیتا ہے، یہ بھی اس رقم کو لکھتا ہے۔ اس رقم کا حکم یہ ہے کہ یہ لینا جائز ہے مگر اس پر ثواب نہیں ملتا اور نہ ہی اس میں برکت ہوتی ہے البتہ اس رقم کا واپس کرنا فرض ہے اور اس صورت میں جس نے بغیر کسی عذرِ شرعی کے وہ رقم واپس نہیں کی، اس سے ناراضگی کا اظہار کرنا اور اسے برا بھلا کہنا جائز و درست ہے۔(2)جہاں برادری نظام نہیں ہے یا غیر برادری کے لوگ عقیدت یا دوستی یا خیرخواہی کی نیت سے دیتے ہیں تو بلا اجازتِ شرعی اس کا مطالبہ کرنا یا نہ دینے پر ناراض ہونا، اس پر طعن و تشنیع کرنا (برا بھلا کہنا) غلط و باطل ہے۔ مذکورہ حکم کی وجہ یہ ہے کہ جہاں برادری نظام میں اسے لکھ کر رکھتے ہیں وہاں یہ رقم دوسرے شخص پر قرض ہوتی ہے، پھر جب وہ اس رقم کو لوٹاتا ہے تو اس پر مزید کچھ قرض چڑھا دیتا ہے مثلاً یہ 1000 روپے دے کر آیا تھا تو وہ اسے 1500 دیتا ہے جس میں 1000 کے ذریعے قرض سے سبکدوش ہوتا ہے اور باقی 500 اس پر مزید قرض ہوجاتے ہیں اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ چونکہ یہ رقم لینے والے پر قرض ہے اس لیے اس کی ادائیگی کرنا فرض ہے اور اگر یہ بلا اجازتِ شرعی ادائیگی میں کوتاہی کرے گا تو اس پر اظہارِناراضگی ومطالبے میں سختی فی نفسہٖ (بذاتِ خود)جائزلیکن عرفاً معیوب (بُرا) اور عموماً دوسرے کثیر گناہوں مثلاً قطع رحمی (رشتہ داروں سے تعلق توڑ دینا) وغیرہ کا ذریعہ بنتی ہے۔

اور جہاں برادری سسٹم نہیں یا غیربرادری کے لوگ عقیدت یا دوستی میں دیتے ہیں وہاں یہ رقم ہدیہ و تحفہ ہوتی ہے اوراس کے تمام احکام یہاں بھی جاری ہوں گے لہٰذامثلاً کسی نے 1000 روپے دئیے اور اس نے لے کر خرچ کر لیے تو اب دینے والا اس رقم کا مطالبہ نہیں کرسکتا اور جب لینے والے پر واپس کرنا ہی ضروری نہیں تو نہ دینے کی وجہ سے اس پر اظہارِ ناراضگی اور طعن و تشنیع کرنا بہت قبیح (بُرا) اور بری حرکت ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔ بہر صورت (ہر حال میں) ہونا یہ چاہیے کہ اس رسم کو ختم کیا جائے اور صرف رضائے الٰہی پانے کے لیے جس کے ہاں دعوت ہو اسے رقم وغیرہ دی جائے تا کہ ہمیں اس پر ثواب بھی ملے اور برکت بھی۔ اور جو یہ چاہتے ہوں کہ ہم اس قرض سے بچ جائیں انہیں چاہیے کہ ابتدا میں ہی لوگوں سے کہہ دے کہ میں قرض لینا نہیں چاہتا، اگر مجھ سے ممکن ہوا تو میں بھی دینے والے کی تقریب میں کچھ خرچ کردوں گا۔ اس طرح جو رقم ملے گی وہ قرض نہیں، تحفہ ہوگی اور بعد میں واپس نہ بھی کی تو اس پر کوئی مواخذہ (بُرا) نہیں۔

(دعوت اسلامی)

عقیقہ کرتے وقت کیابچہ اورجانورایک ہی جگہ پر حاضرہونا ضروری ہے؟

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے