سورہ فاتحہ کی آیت یا کچھ کم ہو تو نماز کا حکم ؟

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کےبارے میں  کہ فرض نماز کی پہلی دو  رکعتوں میں سے کسی رکعت میں  بھولے سے سور ۂ فاتحہ کی ایک آیت یا اس کا کچھ حصہ رہ جائےاور آخرمیں سجدہ سہو کیےبغیر یونہی  نماز مکمل کر کےنماز توڑنے والا کوئی عمل بھی کر لیا    ،تو اس نماز کے بارے میں کیا حکم شرعی ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت میں نماز دوبارہ پڑھنا واجب ہے،کیونکہ جن رکعتوں میں سورۂ  فاتحہ پڑھنا واجب ہے، یعنی فرض نماز  کی پہلی دو رکعتیں اور سُنَن ونوافل اور وتر  کی ہررکعت ،اِن میں اگر بھولے سے سورۂ فاتحہ کی کوئی آیت یا اس کا کچھ حصہ رہ جائے ، تو اس کی تلافی کے  لیے سجدۂ  سہوواجب  ہوتا  ہےاور سجدۂ  سہو واجب   ہونے کے باوجود نہ کیاجائے یا قصدا ً فاتحہ کا کچھ حصہ ترک کیا، تو  نماز   دوبارہ پڑھنا  واجب  ہوتی ہے۔

    سورۂ  فاتحہ کی ایک آیت یا  چند حروف رہ جانے کی  صورت میں سجدۂ  سہو واجب ہونے کے متعلق درمختار  میں ہے:”في المجتبی یسجد بترك آیة منها، و هو أولی ،قلت: وعليه فكل ‌آية واجبة ، ككل تكبيرة عيد  “ترجمہ:مجتبیٰ میں ہے،سورہ فاتحہ کی ایک آیت چھوٹنے  سے سجدہ سہو کرے گا ،یہی اولیٰ ہے،میں کہتا ہوں:اسی بناپر  فاتحہ کی ہر آیت (  کا پڑھنا ) واجب ہے،جیسا کہ نمازِ عید کی ہر تکبیر  کا پڑھنا واجب ہے۔

    رد المحتار میں ہے:”أن الظاهر أن ما في المجتبى مبني على قول الامام بأنها بتمامها واجبة ‌وذكر ‌الآية ‌تمثيلا لا تقييدا ،  اذ بترك شيء منها آية أو أقل ولو حرفا ، لا يكون آتيا بكلها الذي هو الواجب، كما أن الواجب ضم ثلاث آيات، فلو قرأ دونها كان تاركا للواجب ۔“ترجمہ:ظاہر یہی ہےکہ مجتبیٰ کا قول امام اعظم  رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اس قول کی بنیاد پر ہےکہ سورۂ فاتحہ پوری کی پوری واجب ہےاور(مجتبیٰ میں ) ایک  آیت کا ذکر کرنا بطورِ مثال کے ہے ، نہ کہ قید کے طور پر ،کیونکہ سورۂ فاتحہ کی ایک آیت  یا اس سے کم، اگرچہ ایک حرف ہی ہو(اس) کےترک کرنے سے ،وہ پوری پڑھنے والانہیں ہوگا ، حالانکہ (پوری پڑھنا) واجب ہے،جیساکہ  تین آیات کا ملانا واجب ہے،اگر کوئی اس سے کم پڑھے ، تو واجب کا ترک کرنے والا ہو گا۔

(درمختار مع ردالمحتار ،کتاب الصلاۃ ،واجبات الصلاۃ ، جلد2، صفحہ184، مطبوعہ  کوئٹہ)

مقتدی اگر قصداً واجب چھوڑے، تو کیا اسے کوئی رعایت ملے گی؟؟

    سجدۂ سہو  واجب ہونے کے باوجود نہ کرنے سے اعادہ  واجب  ہونے کے متعلق  درمختار میں ہے:”وتعاد وجوبا في العمد والسهو إن لم يسجد له وإن لم يعدها يكون فاسقا آثماوكذا ‌كل ‌صلاة ‌أديت مع ‌كراهة التحريم تجب إعادتها‘‘ ترجمہ: اور جان بوجھ کر واجب چھوڑایا بھولے سے چھوٹ جانے کی صورت   میں سجدہ سہو نہ کیا ، تو نماز دوبارہ پڑھنا واجب  ہےاوراگر اعادہ نہیں کرے گا ، تو گنہگار ہوگا اوریونہی ہر وہ نماز جو کراہتِ تحریمی کے ساتھ اداکی جائے ،اس کا لوٹانا واجب ہے۔

(درمختار مع ردالمحتار ،کتاب الصلاۃ، واجبات الصلاۃ، جلد2، صفحہ181، مطبوعہ  کوئٹہ)

    سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ(سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:” واجب بھول کر چھوٹا ، تو  سجدہ سہو کاحکم ہے اور قصداً چھوڑا یابھول کرچھوٹا تھا ، مگر سجدہ سہو نہ کیا ، تو اعادہ واجب ہے۔ “

( فتاوی رضویہ،  جلد7،صفحہ306، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے