سوال: کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ زکوۃ کا وکیل اگر خود ہی مستحقِ زکوۃ ہو، تو کیا وہ زکوۃ کی رقم کو اپنی ذات پر بھی خرچ کرسکتا ہے؟ کیا اس کی کوئی گنجائش نکلتی ہے؟
جواب: زکوۃ کے وکیل کا اپنی ذات پر زکوۃ کی رقم خرچ کرنا ، جائز نہیں، مگر یہ کہ مالک نے یہ کہہ دیا ہو کہ جس جگہ چاہو اِسے خرچ کرو، تو اس صورت میں وہ مستحقِ زکوٰۃ ہونے کی صورت میں خود بھی رکھ سکتا ہے۔
زکوۃ کا وکیل اپنی ذات پر زکوٰۃ کب خرچ کرسکتا ہے اور کب نہیں؟ اس سے متعلق فتاویٰ شامی، بحر الرائق وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”والنظم للآخر“ في الظهيرية: رجل دفع زكاة ماله إلى رجل وأمره بالاداء فأعطى الوكيل ولد نفسه الكبير أو الصغير أو امرأته وهم محاويج جاز ولا يمسك لنفسه شيئا ، ولو أن صاحب المال قال له ضعه حيث شئت له أن يمسك لنفسه اه۔ “یعنی فتاویٰ ظہیریہ میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی زکوۃ دوسرے شخص کو دی اور اسے زکوۃ ادا کرنے کا حکم دیا تو وکیل وہ زکوۃ اپنے بڑے یا چھوٹے بیٹے یا اپنی بیوی کو دے سکتا ہے جبکہ وہ محتاج ہوں، ہاں اپنی ذات کے لیے اُس میں سے کچھ نہیں روک سکتا، مگر صاحبِ مال نے اُسے یہ کہا ہو کہ تم جیسے چاہو اسے خرچ کرو تو اب یہ مستحق ہونے کی صورت میں اپنی ذات کے لیے بھی وہ زکوۃ رکھ سکتا ہے۔(البحر الرائق، کتاب الزکاۃ، ج 02، ص 263، دار الکتاب الاسلامی)
سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا:” زید نے بکر کو کچھ دیا اور کہا اس کو مساکین کوجہاں مناسب سمجھو دے دیجیو ، اگر زید خود اس کا مصرف ہو اپنے اوپر اس کو صرف کر سکتا ہے یا نہیں ؟“ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:” جس کے مالک نے اُسے اذنِ مطلق دیا کہ جہاں مناسب سمجھو، دو، تو اسے اپنے نفس پر بھی صرف کرنے کا اختیار حاصل ہے، جبکہ یہ اس کا مصرف ہو۔ ہاں اگر یہ لفظ نہ کہے جاتے اُسے اپنے نفس پر صَرف کرنا ، جائز نہ ہوتا مگر اپنی یا اولاد کودے دینا جب بھی جائز ہوتا اگر وُہ مصرف تھے۔ “(فتاوٰی رضویہ، ج 10، ص 158، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
بہار شریعت میں ہے:”وکیل کو یہ اختیار نہیں کہ خود لے لے، ہاں اگر زکاۃ دینے والے نے یہ کہہ دیا ہو کہ جس جگہ چاہو صرف کرو تو لے سکتا ہے۔“(بہارِ شریعت، ج 01، ص 888، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم