سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا زید پر اپنی منکوحہ کا فطرہ بھی واجب ہوگا؟ جبکہ ابھی صرف نکاح ہی ہوا ہے کچھ عرصے بعد رخصتی ہونی ہے ؟
جواب: شوہر پر بیوی کا فطرہ واجب نہیں، خواہ رخصتی ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو، البتہ اگر شوہر بیوی کا فطرہ اس کی اجازت کے ساتھ اپنی طرف سے ادا کردیتا ہے تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں، اس صورت میں بھی بیوی کا فطرہ ادا ہوجائے گا۔
شوہر پر بیوی کا فطرہ واجب نہیں۔ جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری وغیرہ کتبِ فقہیہ میں کچھ یوں مذکور ہے:”ولا يؤدي عن زوجتہ ولا عن أولاده الكبار وإن كانوا في عيالہ ولو أدى عنهم أو عن زوجته بغير أمرهم أجزأهم استحساناً كذا في الهداية، وعليه الفتوى كذا في فتاوى قاضي خان۔“ترجمہ : ”مرد پر اپنی زوجہ اور بالغ اولاد کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا واجب نہیں، اگر چہ وہ اس کے عیال ہو۔ اگر مرد بالغ اولاد اور زوجہ کی طرف سے ان کی اجازت کے بغیر ہی صدقہ فطر ادا کردیتا ہے تو استحساناً ان کا صدقہ فطر ادا ہوجائے گا جیسا کہ ہدایہ میں مذکورہے۔ اسی پر فتوی ہے جیسا کہ فتاوی قاضی خان میں مذکور ہے۔ “(فتاوٰی عالمگیری، کتاب الزکاۃ، ج 01، ص 193،مطبوعہ پشاور)
کیا سیدمحبت میں اپنی غيرسیدہ بیوی کے پیر چوم سکتے ہیں؟
سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ” زید کی بیوی ہندہ جو مالکِ نصاب نہیں ہے مع اپنے ایک خوردسال(کم عمر) بچّے کے اپنے باپ بکر کے یہاں یعنی میکے میں عیدالفطر کو قیام رکھتی ہے تو اُس کا اور اس کے لڑکے کا صدقہ کس کو دینا چاہئے، آیا زید کو جو ہندہ کا شوہر ہے یا بکر کو جو ہندہ کا باپ ہے۔ “ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:”خورد سال (کم عمر) بچّے کا صدقہ فطر اُس کے باپ پر ہے، اور عورت کا نہ باپ پر نہ شوہرپر، صاحبِ نصاب ہوتی تو اس کا صدقہ اسی پر ہوتا ہے۔“(فتاوٰی رضویہ، ج10،ص296-295، رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ملتقطاً)
بہارِ شریعت میں ہے: ”اپنی عورت اور اولاد عاقل بالغ کا فطرہ اُس کے ذمہ نہیں اگرچہ اپاہج ہو، اگرچہ اس کے نفقات اس کے ذمہ ہوں۔ عورت یا بالغ اولاد کا فطرہ ان کے بغیر اِذن ادا کر دیا تو ادا ہوگیا، بشرطیکہ اولاد اس کے عیال میں ہو یعنی اس کا نفقہ وغیرہ اُس کے ذمہ ہو ۔“ (بہار شریعت ، ج 01، ص 938، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم