سوال: جس پرجمعہ کی نمازفرض ہواوروہ بھول کر جمعہ کے دن جمعہ سے پہلےظہر کی نماز پڑھ لے تو اب اس کے لیے کیا حکم ہے؟اور جب یاد آئے تو اس وقت جمعہ ملنے کے امکانات نہ ہوں تو پھر کیا حکم ہے؟
جواب: جس پر جمعہ کی نمازفرض ہواوروہ بھول کر جمعہ کے دن جمعہ سے پہلے ظہر کی نماز پڑھ لے تو بھول کر ظہر پڑھنے کی وجہ سے وہ گناہگار تو نہیں ہوگا ،لیکن اگر اس وقت یاد آیا کہ جس وقت ظن غالب ہوکہ شہر میں کسی جگہ بھی جمعہ نہیں ملے گا تو اب جمعہ کیلئے جانا فرض نہیں ،اور اگر شہر میں کسی جگہ بھی جمعہ ملنے کے امکانات ہوں ،اگرچہ وہ جگہ دور ہو تو جمعہ کے لیے جانا ہوگا اور اب جمعہ کے لیے نکلتے ہی ظہرکی نماز باطل ہوجائے گی ،اگر جمعہ مل جائے تو پڑھ لے ورنہ ظہر کی نماز پھر سے پڑھے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:’’ومن لا عذر لہ لو صلی الظھر قبلھا کرہ کذا فی الکنز‘‘ ترجمہ:جس شخص پر جمعہ فرض ہو اگر وہ (جان بوجھ کر)جمعہ کی ادائیگی سے پہلے ظہر پڑھ لے تو ایسا کرنا مکروہ تحریمی ہے،اسی طرح کنز میں ہے۔(فتاوی عالمگیری ،جلد1،باب صلاۃ الجمعہ،صفحہ 164،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)
تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:’’(فان فعل ثم) ندم و (سعی) الیھا…( بان انفصل عن) باب( دارہ)( بطل) ظھرہ ‘‘ ترجمہ : اگر جمعہ سے پہلے ظہر کی نماز پڑھ لی پھر نادم ہوا اور جمعہ کیلئے اپنے گھر کے دروازے سے نکل گیا تو اس کی ظہر کی نماز باطل ہوجائے گی۔
علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ تنویر الابصار کی اس عبارت(بطل)کے تحت ارشاد فرماتے ہیں:’’قال فی البحر:واطلق أی:فی البطلان فشمل ما اذا لم یدرکھا لبعد المسافۃ مع کون الامام فیھا وقت الخروج او لم یکن شرع ،وھو قول البلخیین‘‘ترجمہ:بحر میں فرمایا کہ بُطلان کو مطلق ذکر کیا تو اس میں وہ صورت بھی شامل ہوجائے گی کہ جب اُسے مسافت کے دور ہونے کے سبب جمعہ نہ مل سکے،اگرچہ جمعہ کے لیے نکلتے وقت امام جمعہ کی نماز میں تھا یا ابھی اس نے نماز شروع نہیں کی تھی اور یہ علمائے بلخ کا قول ہے۔(تنویر الابصار مع الدر المختار و رد المحتار،جلد3 ،صفحہ34-35، مطبوعہ: کوئٹہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم