سوال: تین طلاق کا اسلام میں کیا نظریہ ہے،کسی کو ذرا ،ذرا سی بات پر طلاق دینا کیسا ہے؟
جواب:مدخولہ عورت(جس سے شوہرہمبستری کرچکاہو)یاجس سے خلوتِ صحیحہ ہو چکی ہو،یہ حاملہ ہویا نہ ہو،حیض میں ہو یا نہ ہو ،اس کوجب شوہراسے تین طلاقیں دے گا،توتینوں واقع ہوجائیں گی،شوہرچاہے ایک وقت میں تین طلاقیں دے یاالگ الگ بہرصورت تین طلاقیں ہی واقع ہونگی اوروہ عورت شوہرپرحرمتِ غلیظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی،اس کے بعددونوں ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہ سکتے،دونوں پرلازم ہےکہ فوراًایک دوسرے سے جداہوجائیں اوراب عورت عدت گزارکرجہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے،کیونکہ قرآن وحدیث کے فیصلہ کے مطابق شوہرکونکاح کے ساتھ یابلانکاح رجوع کرنے کااختیارفقط دوطلاق تک حاصل ہوتاہے،اگرتین طلاقیں دیدی جائیں،تواب عورت اس سابق شوہرکیلئے بغیرحلالہ شرعیہ ہرگزحلال نہیں رہتی، پہلے شوہرکی عدت گزارنے کے بعدوہ آزادہے، جس سے چاہے نکاح کے احکام وشرائط کوسامنے رکھ کرنکاح کرسکتی ہے اوریہ نکاح عورت کی رضامندی سے ہوگا،اسے مجبورنہیں کرسکتے۔اب اگرعورت دوسری جگہ نکاح کرلیتی ہے، تودوسرے شوہر کے ساتھ اس کا زندگی گزارنامیاں بیوی کی باہمی رضامندی سے ہے،لیکن اس دوسرے شوہرسے ازدواجی تعلقات) یعنی نکاح صحیح کے بعد جماع، جس میں وطی بھی ضروری ہے(قائم ہونے کے بعد،اگراس سے بھی طلاق ہوجائے یااس دوسر ے شوہرکاانتقال ہوجائے، تواسکی عدتِ طلاق یا وفات گزارنے کے بعدیہ عورت اوراس کاسابقہ شوہرآپس میں پھرسے نکاح کرناچاہیں،توکرسکتے ہیں،جبکہ انہیں غالب گمان ہوکہ اب دوبارہ شروع ہونیوالی ازدواجی زندگی میں اللہ عزوجل کی حدودقائم رکھ سکیں گے اورایک دوسرے کے حقوق ٹھیک طورپراداکر سکیں گے۔
اور بلاوجہ شرع طلاق دینا منع ہے اوروجہ شرعی ہو تو مباح بلکہ بعض صورتوں میں مستحب مثلاً عورت اس کویااوروں کو ایذا دیتی یا نماز نہیں پڑھتی ہے۔