سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر وتر تہجد تک مؤخر کرکے پڑھنے ہوں،تو پہلے تہجد ادا کریں گے یا وتر؟بحوالہ رہنمائی فرما دیجیے۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں بہتر یہ ہے کہ پہلے تہجد ادا کریں اور آخر میں وتر پڑھیں۔ واضح رہے کہ تہجد تک وتر کو مؤخر کرنا اسی کے لئے بہتر ہے جسے یہ اعتماد ہو کہ وہ تہجد میں اٹھ جائے گا، اگر یہ اعتماد نہ ہو تو پھر رات کو سونے سے پہلے وتر ادا کرلئے جائیں۔
حضرت سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:” اجعلو آخر صلوٰتکم باللیل وتراً“ ترجمہ: رات کی نمازوں کے آخر میں وتر پڑھو۔ (صحیح مسلم، جلد1، صفحہ 257، مطبوعہ:کراچی)
حضرت سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ نبی مکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:” من خاف ان لا یقوم من اٰخر اللیل فلیوتر اولہ و من طمع ان یقوم اٰخرہ فلیوتر اٰخر اللیل فان صلوۃ اٰخر اللیل مشھودۃ و ذلک افضل“ ترجمہ:جسے یہ اندیشہ ہو کہ وہ رات کے آخر ميں نہیں اٹھ سکے گا و ہ اول شب میں ہی وتر پڑھ لے اور جسے امید ہو کہ رات کے آخر میں اٹھ جائے گا وہ رات کے آخر میں وتر پڑھے کہ آخرِ شب کی نماز میں رحمت کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ افضل ہے۔(صحیح مسلم، جلد1، صفحہ 258، مطبوعہ: کراچی)
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تہجد کی نماز کے بارے میں فرماتے ہیں: ”بہتر اخیر شب تک اس کی تاخیر مگر جو اپنے جاگنے پر اعتماد نہ رکھتا ہو، وہ پہلے ہی پڑھ لے۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد 7، صفحہ 416، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: ”تہجد پڑھنے والا جسے اپنے اٹھنے پر اطمینان ہو اسے افضل یہ ہے کہ وتر بعدِ تہجد پڑھے پھر وتر کے بعد نفل نہ پڑھے، جتنے نوافل پڑھنا ہوں وتر سے پہلے پڑھ لے ۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد 7، صفحہ 447، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:”جس کو یہ بھروسہ ہو کہ آخر شب میں اٹھ جائے گا اسےوترآخر شب میں تہجدکےبعد پڑھنا بہتر ہے، ورنہ اول شب ہی میں سونے سےپہلےپڑھ لے۔“(فتاویٰ امجدیہ، جلد 1، صفحہ 202، مکتبۃ رضویہ کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم