سوال: اخبار پڑھنا کیسا ہے؟
جواب: جو اَخبار شَرْعی تقاضوں کے مطابِق ہو اُسے پڑھناجائز ہے اور ایسے اخبار نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو اَخبار ایسا نہیں اُس کا مُطالَعہ صِرْف اُس کے لئے جائز ہے جو بے پردہ عورَتوں کی تصاویر اور فلمی اشتِہارات کے فُحش مناظِر وغیرہ سے نگاہوں کی حفاظت پر قدرت رکھتا ہو، گناہوں بھری تحریرات وغیرہ بِلااجازت ِشَرْعی نہ پڑھتا ہو۔بعض اخبارات میں بسااوقات واہِیات وخُرافات کے ساتھ ساتھ گمراہ کُن کلمات بلکہ کبھی تو مَعَاذَ اللہ عَزَّ وَجَلَّکفریات تک لکھے ہوتے ہیں،لہذا ایسے اخبارات پڑھنے سے لازمی بچیں کہ ایسے اخبارات پڑھ کر خود کو معصیت وگمراہی سے بچانا نہایت مشکل ہے۔
البتہ یہ بھی خیال رہے کہ اگر کبھی کسی عالمِ دین بلکہ عام آدَمی کو بھی اخبار بینی کرتاپائیں تو ہرگز بدگُمانی نہ فرمائیں بلکہ ذہن میں حسنِ ظن جمائیں کہ یہ شَرْعی احتیاطوں کو مَلحوظ رکھتے ہوئے مُطالَعہ کر رہے ہوں گے۔
اخبار کے بارے شرعی احکام جاننے کے لئے امیر اہلسنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قاری دامت برکاتہم العالیہ کا رسالہ’’اخبار کے بارے سوال وجواب ‘‘کا مطالعہ مفید رہے گا۔