مُخالفتِ شیطان
مُخالفتِ شیطان

اللہ کی خفیہ تدبیر سے ڈرنا

اللہ کی خفیہ تدبیر سے ڈرنا

اللہکی خفیہ تدبیر سے ڈرنے کی تعریف:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پوشیدہ اَفعال سے واقع ہونے والے بعض اَفعال کو اس کی خفیہ تدبیر کہتے ہیں اور اس سے ڈرنا اللہکی خفیہ تدبیر سے ڈرنا کہلاتا ہے۔[1] (نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۸۵)

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:(اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللّٰهِۚ-فَلَا یَاْمَنُ مَكْرَ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ۠(۹۹))(پ۹،الاعراف:۹۹)ترجمۂ کنز الایمان: ’’کیا اللہکی خَفی تدبیر سے نڈر ہیں تو اللہ کی خَفی تدبیر سے نڈر نہیں ہوتے مگر تباہی والے۔‘‘

صَدرُالافاضل حضرتِ علّامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی اس آیت مبارکہ تحت فرماتے ہیں: ’’اور اس کے مخلص بندے اس کا خوف رکھتے ہیں۔ ربیع بن خثیم کی صاحبزادی نے ان سے کہا: کیا سبب ہے میں دیکھتی ہوں سب لوگ سوتے ہیں اور آپ نہیں سوتے ہیں؟ فرمایا: ’’اے نورِ نظر! تیرا باپ شب کو سونے سے ڈرتا ہے یعنی یہ کہ غافل ہو کر سوجانا کہیں سبب عذاب نہ ہو۔‘‘[2](نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۸۵،۲۸۶)

(حدیث مبارکہ)گناہ پر قائم رہنے والے کے بارے میں خفیہ تدبیر:

حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ارشاد فرمایا: جب تم کسی بندے کو دیکھو کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے اس کی خواہش کے مطابق عطا فرماتاہے حالانکہ وہ اپنے گناہ پر قائم ہے تو یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے ڈھیل ہے۔پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی: ( فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍؕ-حَتّٰۤى اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ(۴۴)) (پ۷،الانعام:۴۴) ترجمۂ کنزالایمان :پھر جب انہو ں نے بھلادیا جو نصیحتیں اُن کو کی گئیں تھیں ہم نے اُن پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے یہاں تک کہ جب خوش ہوئے اس پر جو انہیں ملاتو ہم نے اچانک انہیں پکڑلیااب وہ آس ٹو ٹے رہ گئے۔[3](نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۸۶)

اللہ کی خفیہ تدبیر سے ڈرنے کا حکم:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت پر بھروسہ کرتے ہوئے گناہوں میں مستغرق ہوجانا اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہونا کبیرہ گناہ ہے۔‘‘[4] لہٰذا ہر مسلمان پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی خفیہ تدبیر سے ڈرنا واجب ہے۔(نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۸۵)

اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی خفیہ تدبیر سے ڈرنے کا ذہن بنانے کے چھ (6)طریقے:

(1)انبیاء و اولیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے احوال پر غور کرنا چاہیے: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی خفیہ تدبیر سے انبیاء کرام عَلَیْہِ السَّلَام ، فرشتے اور اولیاء کرام بھی خوف زدہ رہتے ہیں، اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نبی اور فرشتے معصوم ہیں، ان سے اللہ تَعَالٰی کی نافرمانی ممکن نہیں جبکہ ہم سراپا خطا ہیں، ہمارے جسم کا ہر ذرہ گناہوں سے آلودہ ہے، ہماری زندگی کا بہت بڑا حصہ غفلت میں گزر رہا ہے جبکہ انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام اور فرشتوں کا ہر لمحہ خدا کی بندگی میں بسر ہوتا ہے مگر پھر بھی وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی خفیہ تدبیر سے غافل نہ ہوں اور ہم ہر وقت ربّ عَزَّوَجَلَّکی نافرمانی اور سرکشی میں منہمک ہونے کے باوجود اپنے بارے میں مطمئن رہیں، بلاشبہ یہ ہمارے لیے نہایت خطرے کی بات ہے، ہمیں ہر وقت اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ چنانچہ منقول ہے کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور حضرت سیدنا جبریل امین عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے خوف سے رو رہے تھے، اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے وحی فرمائی کہ تم دونوں کیوں رو رہے ہو حالانکہ میں تمہیں امان دے چکا ہوں؟ عرض کی:’’اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! تیری خفیہ تدبیر سے کون بے خوف ہوسکتا ہے؟‘‘[5]

(2)بُرے خاتمے کا خوف کیجئے: ہر مسلمان کو بُرے خاتمے سے ڈرنا چاہیے کہ بُرے خاتمے کا خوف دل میں بٹھانے سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی خفیہ تدبیر کا خوف بھی دل میں بیٹھ جائے گا اور کوئی بھی اپنی موت کے معاملے میں کیسے مطمئن ہو سکتا ہے؟ کیونکہ کوئی شخص اس بات سے واقف نہیں کہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہوگا یا کفر پر اور انسان کی پوری زندگی کا دارو مدار خاتمے پر ہی ہے اسی لیے اگر کوئی شخص ساری زندگی کفر پر رہا مگر موت سے چند لمحے پہلے اسے ایمان کی دولت نصیب ہوگئی تو وہ بامُراد و کامیاب ہوگیا اور جو شخص ساری زندگی اسلام پر رہا اور خوب عبادت و ریاضت کرتا رہا لیکن مرنے سے کچھ دیر قبل مَعَاذَ اللّٰہ کافر و مرتد ہوگیا تو ایسا شخص تباہ و برباد اور ہمیشہ کے لیے نار جہنم کا مستحق ہے، برے خاتمے کا معاملہ تو اتنا نازک ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے معصوم نبی بھی اس سے خوف زدہ رہتے تھے اگرچہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے فضل سے اُن کا ایمان محفوظ تھا مگر پھر بھی وہ اس بارے میں بےحد متفکر رہا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت سیدنا سَہل بن عبداللہ تُستری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: خواب میں خود کو میں نے جنت میں پایا، جہاں میں نے300انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام سے ملاقات کی اور ان سب سے یہ سوال کیا کہ آپ حضرات دنیا میں سب سے زیادہ کس چیز سے خوف زدہ تھے؟ انہوں نے جواب دیا: ’’بُرے خاتمے سے۔‘‘[6]

(3)گزشتہ لوگوں کے واقعات پر غور کیجئے: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی خفیہ تدبیر سے متعلق بہت سے واقعات اِسلامی کتب میں بیان کیے گئے ہیں جن میں ایسے لوگوں کا تذکرہ ہے کہ جنہوں نےاپنی ساری زندگی عبادت و ریاضت میں گزاری مگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے کسی خاص گناہ کے سبب اُن کی گرفت فرمالی اور اُن کا بہت بھیانک انجام ہوا۔ خود اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے قرآنِ کریم میں بلعم بن باعوراء کے بارے میں بیان فرمایا ہے، یہ بہت عابد و زاہد اور مستجاب الدعوات تھا مگر جب اس نے اپنی قوم کے کہنے پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نبی حضرت سیدنا موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لیے بددعا کی تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اس سے ایمان و معرفت کی دولت چھین لی اور یہ کفر پر مرا۔ اسی طرح اور بھی بہت سے واقعات ہیں جن کا مطالعہ کرنے سے بندے کے دل میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی خفیہ تدبیر کا خوف پیدا ہوتا ہے۔

(4)اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بے نیازی پر غور کیجئے: انسان اپنے عمل سے اللہ تَعَالٰی کی ذات کو نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان، اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ذات بے نیاز ہے، اس کے حکم میں کوئی دخل اندازی نہیں کرسکتا، وہ جس کی پکڑ کرنا چاہے اُسے کوئی چُھڑا نہیں سکتا، بندہ چاہے جتنے نیک اعمال کرلے مگر اس کی بخشش یقینی نہیں، اللہ عَزَّ وَجَلَّ کسی بھی خطا پر بندے کی گرفت فرما سکتا ہے، وہ ظلم سے پاک ہے اور اس کا ہر فیصلہ عدل پر مبنی ہے، انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے نیک اعمال پر بھروسہ نہ کرے بلکہ ہر وقت اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بے نیازی کو مدنظر رکھے اور اس کی خفیہ تدبیر سے ڈرتا رہے اور اپنی عبادت و ریاضت پر ناز نہ کرے، شیطان نے ہزاروں سال عبادت کی مگر اسے تکبر نے آلیا اور وہ ہمیشہ کے لیے مردود ہوگیا۔

(5)اپنی نعمتوں پر غور کیجئے: جس شخص پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے دنیا میں مال و دولت، روزی میں کثرت، فرمانبردار اولاد کی نعمت، اچھی صحت، عہدہ وزارت یا صدارت یا حکومت وغیرہ کے ذریعے فراخی فرمائی ہے اسے یہ سوچنا چاہیے کہ کہیں یہ آسائشیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی خفیہ تدبیر تو نہیں کہ مجھے دنیا میں یہ نعمتیں عطا کردی گئی ہیں اور آخرت میں مجھے ان نعمتوں سے محروم کردیا جائے گا یا یہ نعمتیں میرے لیے غرور و تکبر، سرکشی، غفلت اور مختلف گناہوں کا سبب تو نہیں جن میں مشغول ہو کر میں اپنی آخرت خراب کردوں، اس طرح اپنی نعمتوں کے بارے میں غور و فکر کرنے سے بھی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی خفیہ تدبیر سے ڈرنے کا ذہن بنے گا۔ حضرت سَیِّدُنَا حسن بصری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے ارشاد فرمایا: ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ جس پر وسعت فرمائے اوروہ یہ نہ سمجھ سکے کہ یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی خفیہ تدبیر ہے تو وہ بالکل بے عقل ہے۔‘‘[7]

(6)اپنی آزمائشوں پر غور کیجئے: شیخ طریقت امیر اہلسنت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں: ’’سرمایہ داروں وغیرہ کے ساتھ ساتھ ناداروں، بیماروں اور مصیبت کے ماروں کو بھی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی خفیہ تدبیرسے ڈرنا لازمی ہے کہ ہو سکتا ہے ان آفتوں کے ذریعے آزمائش میں ڈالاگیا ہو اور نا جائز گِلہ شکوہ ، غیرشرعی بے صبری اور غربت و مصیبت کو حرام ذرائع کے ذریعے ختم کرنے کی کوششیں آخرت کی تباہی کا سبب بن جائیں۔‘‘[8](نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۸۸،۲۹۱)


[1] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۴ / ۵۰۴، ۵۰۵ماخوذا۔

[2] ۔۔۔۔خزائن العرفان، پ۹،الاعراف، تحت الآیۃ۹۹۔

[3] ۔۔۔۔معجم اوسط، ۶ / ۴۲۲، حدیث:۹۲۷۲۔

[4] ۔۔۔۔الزواجر عن اقتراف الکبائر، الکبیرۃ التاسعۃ والثلاثون،۱ / ۱۸۵۔

[5] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۴ / ۵۰۳۔

[6] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۴ / ۵۲۵۔

[7] ۔۔۔۔الزواجر عن اقتراف الکبائر،الکبیرۃ التاسعۃ والثلاثون، ۱ / ۱۸۵۔

[8] ۔۔۔۔فیضان سنت ، پیٹ کا قفل مدینہ،ص۶۸۳۔

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے